روشن معیشت؟

جب تک عام پاکستانی، مزدور اور نوکری پیشہ طبقہ معاشی اندھیروں میں بھٹک رہا ہے، اُس وقت تک ملکی معیشت کی روشنی محض خوش فہمی ہوسکتی ہے۔بڑے سرمایہ داروں اور زمینداروں کی خوشحالی قوم کی مجموعی خوشحالی کی ضمانت نہیں بن سکتی، کیونکہ معیشت کی اصل بنیاد وہ ہاتھ ہیں جو محنت کرتے ہیں، اور وہ گھرانے ہیں جو مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہیں۔ جب تک ایک عام مزدور کی تنخواہ اُس کے اخراجات کا ساتھ نہیں دے گی، جب تک ایک سرکاری ملازم اپنی محنت کا پھل عزت سے نہیں کھا سکے گا، تب تک ترقی کے تمام دعوے کھوکھلے رہیں گے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت پالیسیوں کا محور امیر طبقہ نہیں بلکہ وہ غریب شہری ہو جس کے کندھوں پر قوم کی معیشت ٹکی ہوئی ہے۔ عام پاکستانی کی معیشت کو مضبوط بنانا ہی دراصل ملکی معیشت کو روشن کرنے کا حقیقی راستہ ہے۔وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے چندروزقبل ملکی معاشی ڈھانچے کو متحرک کرنے کے لیے،روشن معیشت بجلی پیکیج،کا اعلان کرتے ہوئے اسے صنعت و زراعت کے لیے ایک مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔ حکومتی اعلان کے مطابق نومبر 2025 سے اکتوبر 2028 تک صنعتوں اور زرعی صارفین کو اضافی استعمال کی صورت میں بجلی 22 روپے 98 پیسے فی یونٹ کے رعایتی نرخ پر فراہم کی جائے گی۔ اس وقت صنعتی بجلی 34 روپے جبکہ زرعی صارفین کے لیے 38 روپے فی یونٹ ہے، جو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پہلے ہی بلند سطح پر ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ اس اقدام سے پیداواری سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا، برآمدات کو فروغ ملے گا اور معاشی نمو میں استحکام پیدا ہوگا۔یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ،اضافی بجلی،سے مراد وہ یونٹ ہیں جو کسی صنعتی یا زرعی صارف کے معمول کے اوسط سالانہ استعمال سے زیادہ ہوں۔ اس نقطے کی روشنی میں یہ پیکیج بنیادی طور پر صرف ان اداروں اور بڑے کاشتکاروں کے لیے عملی اہمیت رکھتا ہے جنہیں اپنی پیداواری صلاحیت اور بجلی کے استعمال میں وسعت کی گنجائش حاصل ہے۔ یوں اس رعایت کی گنگا براہ راست انہی طبقات کی جانب بہتی محسوس ہوتی ہے جو پہلے ہی وسائل اور معاشی طاقت کے حامل ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی ریاستی پالیسی کا محور کیا صرف بڑے پیمانے کی صنعت و زراعت ہونا چاہیے، یا گھریلو صنعت اور چھوٹے کاروباروں کو بھی برابر کی اہمیت دے کر معاشی توازن حاصل کیا جا سکتا ہے؟حکومت یہ یقین دہانی کروا رہی ہے کہ اس پیکیج کا مالی بوجھ گھریلو صارفین یا دیگر شعبوں کو منتقل نہیں ہوگا۔ تاہم پاکستان کی معاشی تاریخ اس حوالے سے حوصلہ افزا نہیں رہی۔ سبسڈیز، گردشی قرضہ، لائن لاسز اور بجلی چوری جیسے عوامل کے بوجھ بالآخر کسی نہ کسی صورت غریب عوام تک پہنچتے رہے ہیں۔ توانائی کے نرخوں کا مسئلہ محض صنعت یا زراعت تک محدود نہیں۔ گھریلو صارفین اس وقت شدید مالی دباؤ کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ ایک متوسط خاندان، جو ایک پنکھا، موٹر، فریج اور واشنگ مشین جیسے بنیادی برقی آلات استعمال کرتا ہے، ہزاروں روپے کا ماہانہ بل ادا کرنے پر مجبور ہے۔ موجودہ معاشی حالات میں 30 تا 35 ہزار روپے ماہانہ کمائی والا مزدور اپنے اہل خانہ کے لیے راشن، مکان کاکرایہ، تعلیم اور صحت کے اخراجات ادا کرتے کرتے ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس پر بجلی اور گیس کے بل کسی قہر سے کم محسوس نہیں ہوتے۔ صنعتوں کی پیداوار بڑھے گی تو روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوگا اور مزدوروں کو وقتی معاشی ریلیف مل سکے گا۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں چھوٹے صنعتی یونٹس، گھریلو صنعتیں اور دیگرچھوٹے کاروبار معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ چھوٹے کاروبار کم سرمائے میں زیادہ روزگار مہیا کرتے ہیں اور محنت کش طبقے کو آمدن کے ذرائع فراہم کرتے ہیں۔ انہیں سستی بجلی، آسان قرضے، ٹیکسوں میں نرمی اور مارکیٹ تک رسائی نہ دی جائے تو معاشی نظام کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پالیسی ساز اکثر بڑے طبقے کی نمائندگی کے زیر اثر رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں چھوٹے کاروبار نظر انداز ہو جاتے ہیں۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب تک عام پاکستانی کی آمدنی میں بہتری نہ آئے اور مہنگائی کی شرح قابو میں نہ رہے تو ملک میں معاشی خوشحالی کا تصور محض دعووں تک محدود رہتاہے۔ ریاست کی ذمہ داری صرف بڑے سرمایہ کاروں کو سہولت دینا نہیں بلکہ عام شہری کی روزمرہ زندگی میں آسانیاں پیدا کرنا ہے۔بجلی، گیس اور ضروری اشیاء کی قیمت کم نہ کی گئیں اور آمدن میں خاطرخواہ اضافہ نہ ہوا تو معاشرتی انتشار اور جرائم بڑھنے کا خطرہ مستقل طور پر لاحق رہے گا۔ موجودہ معاشی دباؤ نے عوام کی ذہنی صحت پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ماہرین کے مطابق مالی وسعت کی کمی، بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی اور معاشی بے یقینی لوگوں کو نفسیاتی مسائل کی طرف دھکیلتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت روشن معیشت پیکیج کے ساتھ ساتھ عام پاکستانی شہری، چھوٹے کارخانوں اور گھریلو صنعت کے لیے بھی جامع توانائی پالیسی ترتیب دے۔ بجلی کی قیمت میں طبقاتی تفریق کے بجائے مساوات پیدا کی جائے۔شفاف اور پائیدار معاشی نظام وہی ہوتا ہے جس میں ترقی کے ثمرات اُوپر سے نیچے تک پہنچیں۔پالیسیوں کے فائدے صرف امیرطبقے تک محدود رہیں تو معاشی، سماجی اور سیاسی عدم استحکام پیداہوتاہے۔ قوم کی ترقی کا حقیقی پیمانہ عام شہری کا معیارِ زندگی ہے۔ جب تک اس معیار میں واضح بہتری نظر نہیں آئے گی، حکومتی دعووں کے اثرات عملی میدان میں ادھورے ثابت ہوتے رہیں گے۔



