کالمز

وزیراعظم فیصل ممتاز راٹھورکے نام

آہوں سے سوزِ عشق مٹایا نہ جائے گا
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
جیسے جیسے خزاں کا موسم قریب آتا ہے،انسان کے اندر بھی اُداسی گہری ہوتی جاتی ہے،درختوں سے پتے گرتے دیکھتے ہیں تو نظروں سے گرے ہوئے لوگ یاد آجاتے ہیں، انسان کی فطرت میں ہے کہ جو میسر ہے اس کی قدر نہیں کرتا اور جو اختیار میں نہیں اسکے لئے بے چین رہتا ہے، دنیا میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہیں حاصل کرنے کیلئے زبردستی مناسب نہیں،آپ کتنی ہی کوشش کر لیں،محبت صرف بھروسہ، احترام اورباہمی افہام و تفہیم سے ہی حاصل ہوتی ہے۔دکھ کی دراڑیں چہروں سے تو ُرخصت ہو جاتی ہیں لیکن وہ انسان کے اندر اتر کر اس ایک گوشے کو ویران کر دیتی ہیں جو ِکسی ایک شخص کیلئے مخصوص ہوتا ہے،یادیں پسندیدہ لمحات کی لاشیں ہوتی ہیں، مگر اُن کو دفناتے نہیں کیونکہ اُن کے مرنے کا یقین ہی نہیں ہوتا،خوف خدا، ایک ایسا چراغ ہے جس میں نیکی اور بدی صاف نظر آتی ہے، وراثت صرف پیسہ ہی نہیں، بعض اوقات آپ کے والد کی نیک نامی بھی کافی ہوتی ہے، اور آپ جہاں جاتے ہیں، آپ کو بتایا جاتا ہے کہ آپ کے والد کا شمار بہترین لوگوں میں ہوتا ہے،یہ لمحہ آپ کی سرشاری کا باعث ہوتا ہے،اولاد کے لیے دنیا چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ دنیا کے لیے بہتر اولاد چھوڑ کر جائیں۔کوٹھیاں، بنگلے اور کاریں بنانے کی بجائے اولاد کی تربیت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، آزادکشمیر کے نومنتخب وزیراعظم راجہ فیصل ممتاز راٹھور ان خوش قسمت لوگوں میں شامل ہیں جن کے تعارف کیلئے ان کے والد کا نام ہی کافی ہے، مرحوم و مغفور راجہ ممتاز حسین راٹھور آزادکشمیر میں مٹی کی محبت کا شعور لے کر مزاحمتی سیاست کا پرچم بلند کرنے والی ناباغہ روزگار پہلی شخصیت ہیں جن کی زیر قیادت شروع کی گئی جدوجہد آج کامیابی کے ساتھ منزل کے قریب تر ہے، ممتا ز حسین راٹھور اپنی طویل اور سفر آزماء جدوجہد پر مبنی زندگی میں جو کامیابیاں حاصل نہیں کر سکے ان کا سفر اب فیصل ممتاز راٹھور کے ذریعے آگے بڑھ رہا ہے، وزارت عظمیٰ کے منصب پر باپ کے بعد بیٹے کو بیٹھنے کا اعزاز منفرد حیثیت کا حامل ہے، جو فیصل ممتاز راٹھور کے حصے میں آیا، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے حویلی کہوٹہ پلنگی (ممتاز آباد) کے اس خاندان کے بزرگوں نے اپنی خاندانی جداگانہ حیثیت اور انفرادیت بحال رکھنے کیلئے بہت قربانیاں دیں، جس علاقہ میں راٹھور خاندان نے برسوں حکمرانی کی اسی علاقے میں اس خاندان کو عزمت رفتہ کی بحالی کیلئے کئی نسلوں تک انتظار کرنا پڑا، ممتاز حسین راٹھور مرحوم 1990ء میں وزارت عظمیٰ کے منصب پر تو پہنچے لیکن اپنے ہی ساتھیوں کی اندرونی سازشوں کا شکار ہوئے، اور پھر راٹھور مرحوم نے وہی کیا جو ایک غیرت مند اور خودار راجپوت کو کرنا چاہیے تھا، بعد ازاں بے شک انہیں اپنے اس جرات مندانہ اقدام کی بھاری قیمت چکانا پڑی، جب تک بڑے راٹھور صاحب زندہ رہے آزادکشمیر کے عوام کے دلوں میں ان کیلئے لازوال محبت اور عقیدت موجود رہی، ان کے انتقال کے بعد اس خاندان کو اپنی بقاء اور وقار کیلئے کیا کچھ کرنا پڑا کسی کو معلوم نہیں، آج راجہ فیصل ممتاز راٹھور کے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی گلی کوچوں سے ممتاز راٹھور کے چاہنے والوں کا جم غفیر ان کے ارد گر دیکھا جا رہا ہے لیکن فیصل ممتاز راٹھور اچھی طرح جانتے ہیں کہ مفاد پرستی اور موقع پرستی کے اس ماحول میں کون کتنا مخلص ہے۔
راولپنڈی میں پیدائش اورتعلیم کا حصول،سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں دلچسپی فیصل ممتاز راٹھور کو وراثت میں ملی، بڑے راٹھور کے انتقال کے بعد خاندانی سیاست مسعود ممتاز راٹھور نے سنبھالنے کی کوشش کی،وسائل کی کمی اور دیگر نادیدہ مسائل نے اس خاندان کو مشکل صورتحال سے دوچار رکھا، راجہ فیصل ممتاز راٹھور نے ہوش سنبھالنے کے بعد اپنے خاندان کے وقار کی بحالی کیلئے والد کے سیاسی نظریات کا پرچم سربلند کرنے کی ٹھانی اور خاندان کے بزرگ سربلند راٹھور کی سرپرستی و رہنمائی میں سیاسی محاذ پر پیش قدمی شروع کی، ان کی جدوجہد کا تسلسل پاکستان پیپلزپارٹی میں جماعتی قیادت کی قربت کے حصول میں بھی معاون ثابت ہوا، انہیں بہت جلد پارٹی کا مرکزی سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا، بحیثیت جنرل سیکرٹری پاکستان پیپلزپارٹی آزادکشمیر فیصل ممتاز راٹھور نے نظریاتی سیاست کا پرچم سربلند کیا، دھڑے بندی اور سازشوں کے بجائے اپنے کام پر توجہ دی، جماعت اور قیادت کے ساتھ وفاداری نبھائی، اسی صلہ میں انہیں وزارت عظمیٰ کا منصب ملا، بحیثیت نومنتخب وزیراعظم راجہ فیصل ممتاز راٹھور نے روایتی دعوؤں اور نعروں کے بجائے عملی اقدام کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے، ان کا انداز بالکل اپنے والد کا”پرتو“ہے، گفت گو میں شائستگی، لہجے میں نرمی اور چہرے پر مسکراہٹ فیصل ممتاز راٹھور کی شخصیت کا خاصا اور ان کے روشن سیاسی مستقبل کی نوید ہے، اب جب کہ مختصر دورانیہ کی حکومت کیلئے فیصل ممتاز راٹھور کی قیادت میں آزادکشمیر کے اندر نیا سیاسی سفر شروع ہو چکا ہے، نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں، نومنتخب وزیراعظم کیلئے بھی اپنی اہلیت، صلاحیت اور قابلیت ثابت کرنے کا بہترین موقع ہے، فیصل ممتاز راٹھور نوجوان سیاسی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ باشعور اور باوقار شخصیت کے حامل بھی ہیں، ان کے پاس وقت کم ہے انہیں ٹیم میں شامل مخلص اور نظریاتی کارکنوں پر اعتماد اور یقین مستحکم رکھنا ہو گا، ایک بہترین نظریاتی ٹیم کے ساتھ مل کر آزادکشمیر کے محدود جغرافیہ پر مشتمل خطہ میں بہت کچھ نیا کیا جا سکتا ہے، آزادکشمیر میں حکومت کیلئے اس وقت سب سے بڑا چیلنج نظریاتی اور فکری انتشار ہے، اس خلفشار نے ریاست کی نظریاتی بنیادوں کوناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، بنیادی عوامی مسائل کے حل کیلئے نوجوانوں کی جدوجہد سے فیصل ممتاز راٹھور اچھی طرح آگاہ ہیں، اس جدوجہد کے پس منظر میں کارفرما حکمت عملی بھی ان کی نظروں میں ہے، سابق دور حکومت میں فیصل ممتاز راٹھور بہتر پوزیشن میں ہونے کے باوجود فیصلوں میں آزاد نہیں تھے، اب ان پر کوئی قید نہیں، نومنتخب حکومت کوکامیابی کا سفر درست سمت میں آگے بڑھانے کیلئے اپنی سیاسی ٹیم پر انحصار کرنا ہو گا، یہ سیاسی ٹیم وقت اور حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ پالیسی تشکیل دینے کیلئے ہے، جو مقبول عوامی بیانیہ کے ذریعے بیوروکریسی کے ساتھ مل کر قابل عمل بنایا جا سکتا ہے، دیانتدار، فرض شناس افسرا ن پر مشتمل بیورو کریسی کی ٹیم آزادکشمیر کے عوام کیلئے ہر شعبہ زندگی میں آسانی پیدا کرنے میں معاون کردار ادا کر سکتی ہے، حکومتی پالیسی کے نفاذ کیلئے انتظامی افسران کا کردار اہمیت کا حامل ہوتا ہے، یقینافیصل ممتاز راٹھور ٹیم کے انتخاب میں میرٹ کو یقینی بنائیں گے، اپنی سوچ، فکر، جماعتی منشور اور بیانیہ کے ساتھ ساتھ حکومتی اقدامات کو عوام تک پہنچانے کیلئے انہیں ایک تجربہ کار اور دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ میڈیا ٹیم کی ضرورت ہے کیوں کہ موجودہ حکومت کی مختصر دورانیہ کی کارکردگی آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کیلئے معاون ثابت ہو سکتی ہے، پاکستان پیپلزپارٹی کے نظریاتی کارکنوں اور جیالوں کے مزاج کو سمجھنا جناب فیصل ممتاز راٹھور کیلئے کوئی مشکل مرحلہ نہیں کیوں کہ یہ خود اسی کلچر کا حصہ ہے۔ہمارا المیہ ہے کہ ہمیشہ اپنے خیر خواہ کو اُس کے چلے جانے کے بعد پہچانتے ہیں،تعلقات میں کمزوری کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو غصے میں کہی گئی باتوں کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں لیکن پیار محبت اور سکون میں کہی باتوں کو فوراً بھلا دیتے ہیں، موجودہ حالات کا تقاضاہے کہ چیلنجز سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی سے لڑیں اور انہیں آسان کرنے کے لئے سمجھیں،جناب فیصل ممتاز راٹھور وقت آپ کا ہے، چاہئیں تواسے سونا بنا لیں اور چاہئیں تو سابق حکمرانوں کی طرح سونے میں گزار دیں، اگر کچھ الگ کرنا چاہتے ہیں توہجوم سے ہٹ کر چلیں، ہجوم ہمت تو دیتا ہے لیکن شناخت چھین لیتا ہے، منزل ملنے تک ہمت مت ہاریں،اور نہ ہی ٹھہریں کیونکہ پہاڑ سے نکلنے والی نہروں نے آج تک راستے میں کسی سے نہیں پوچھاکہ سمندر کتنی دور ہے، خود کو مرجھانے مت دیں، اپنا سفر جاری رکھیں، مستقبل آپ کا ہے اور یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنا اور آئندہ نسلوں کا مستقبل کس طرح روشن اور خوشحال بناتے ہیں۔حکومت کا ہر دن کارکردگی دکھانے کیلئے اہمیت کا حامل ہے، آپ کے پاس وہ سب کچھ ہے جو ایک کامیاب حکومت چلانے کیلئے ناگزیر ضرورت سمجھا جاتا ہے، ماضی کے حکمرانوں کی غلطیوں کو سامنے رکھ کر اپنی اصلاح اور سمت کا تعین کرنا ہو گا، وقت اور حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ عوام دوست رویہ آپ کو تاریخ میں امر کر سکتا ہے، آزادکشمیر کی سیاست میں گزشتہ چند سالوں سے پیدا ہونے والا ماحول اورمزاج بھی آپ تبدیل کر سکتے ہیں،سرکاری وسائل سے عوام کی فلاح و بہبود ممکن ہے، وسائل کی منصفانہ تقسیم ریاست کے اندر استحکام کیلئے ناگزیر ضرورت بن چکی ہے، مراعات یافتہ اور بالادست طبقات پر مشتمل اشرافیہ کیلئے اب آزادکشمیر کے اندر حکومتی وسائل پر زندہ رہنا آسان نہیں رہا، حکومت پر یہ لازم ہو چکاہے کہ عوامی جذبات و احساسات کو سمجھے اور اپنے قول و فعل میں ہم آہنگی پیدا کر کے اعتماد حاصل کرے۔آزاد کشمیر کے محروم طبقات فیصل ممتاز راٹھور کیلئے دعا گو ہونے کے ساتھ ساتھ ان کیلئے نیک تمناؤں کا بھی اظہار کر رہے ہیں بقول شاعر
سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آرہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ

Related Articles

Back to top button