
خاموشی ہمیشہ سکون کی علامت نہیں ہوتی، بعض اوقات یہ آنے والے طوفان کی سرگوشی بن جاتی ہے۔ آج جنوبی ایشیا میں یہی منظر ہے۔ سرحدوں کے پار کچھ ایسا ہلچل ہے جو بظاہر خاموش، مگر باطن میں بھڑکتی چنگاریوں کی مانند ہے۔ بھارت اور امریکہ کے درمیان طے پانے والا دس سالہ دفاعی فریم ورک اسی خاموشی کا مرکز ہے — ایک ایسا معاہدہ جو آنے والے برسوں میں پورے خطے کی سمت بدل سکتا ہے۔
یہ معاہدہ محض عسکری تعاون نہیں بلکہ ایک اسٹریٹجک الائنس ہے۔ امریکہ اب بھارت کو انڈو پیسفک پالیسی میں کلیدی کردار دینے کے لیے تیار ہے۔ مشترکہ مشقیں، جدید ہتھیاروں کی فراہمی، اور ٹیکنالوجی شیئرنگ — یہ سب ایسے عناصر ہیں جو خطے کے طاقت کے توازن کو واضح طور پر ایک نئے محور میں ڈھال رہے ہیں۔ بظاہر یہ سب ”علاقائی استحکام” کے نام پر ہو رہا ہے، لیکن بین السطور ایک سرد جنگی جنون کی خوشبو پھیلتی محسوس ہوتی ہے۔
پاکستان کے لیے یہ منظرنامہ غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ دفاعی اور سفارتی محاذ پر ملک کو غیر معمولی چوکسی کی ضرورت ہے۔
یہ وقت خاموش تماشائی بننے کا نہیں، خود اپنی پالیسی مرتب کرنے کا وقت ہے۔ وہ پالیسی جو جذبات پر نہیں بلکہ حقائق پر مبنی ہو۔ کیونکہ جذباتی فیصلے اقوام کو کمزور اور حقیقت پسندانہ پالیسیاں انہیں مضبوط بناتی ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری کے قریب بڑھتی ہوئی نقل و حرکت، فائرنگ کے چھوٹے واقعات، اور بھارت کی عسکری سرگرمیوں میں تیزی — یہ سب محض اتفاقات نہیں۔ یہ ایک واضح پیغام ہے کہ جنوبی ایشیا میں طاقت کی بساط دوبارہ بچھائی جا رہی ہے۔
آزاد کشمیر کے سرحدی گاؤں میں لوگ جو کچھ دیکھ اور سن رہے ہیں، وہ کسی رپورٹ سے زیادہ سچا منظر ہے — کہیں پہاڑیوں کے پار گولہ باری کی آوازیں، کہیں ڈرون کی گونج، کہیں سڑکوں پر خوف کی چادر۔
یہ وہ کہانیاں ہیں جو اعداد و شمار میں نہیں آتیں مگر حقیقت کی پوری تصویر بناتی ہیں۔
دوسری جانب، عالمی سطح پر امریکہ کی سفارتی حکمتِ عملی بھی واضح ہے۔ وہ خطے میں ایک ایسے اتحادی کو مضبوط کر رہا ہے جو چین کے بڑھتے اثر کو روک سکے۔ بھارت، جس نے طویل عرصہ غیر جانب داری کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا، اب عملی طور پر امریکی مفادات کے قریب تر آ گیا ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے 1970 کی دہائی کی سرد جنگ دوبارہ نئے چہروں کے ساتھ لوٹ آئی ہو — بس اب میدانِ جنگ روایتی نہیں، بلکہ ڈیجیٹل، معاشی، اور نفسیاتی ہو چکا ہے۔
ایسے میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟
سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ افواہیں کسی ریاست کی پالیسی نہیں ہوتیں۔
افواہیں ہمیشہ قوموں کو تقسیم کرتی ہیں۔
یہ وقت ہے کہ پاکستان اپنی قومی سلامتی، معیشت اور سفارتکاری کو ایک سمت میں ہم آہنگ کرے۔
ہمارے میڈیا، سیاسی قیادت اور عوام سب کو حقیقت کے آئینے میں دیکھنا ہوگا — خوش فہمی کے پردے ہٹا کر، زمینی حقائق کے ساتھ۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ طاقت کا اصل سرچشمہ دفاع سے زیادہ استحکام اور اتحاد میں چھپا ہوتا ہے۔
عالمی منظرنامے پر جب بڑی طاقتیں صف بند ہو رہی ہوں تو چھوٹی ریاستوں کے لیے“خاموشی”سب سے بڑا خطرہ بن جاتی ہے۔
یہ خاموشی اگر پالیسی کی ہو تو طاقت ہے،
مگر اگر بے خبری کی ہو تو کمزوری ہے۔
اسی لیے میں اپنے قارئین سے کہوں گا — خبروں کے شور میں سچ کو پہچانیے،
اور افواہوں کے دھوئیں سے حقیقت کو صاف دیکھیے۔
پاکستان کو اس وقت پرامن مگر مضبوط موقف اپنانا ہوگا۔
سفارت کاری کے دروازے بند کرنا نہیں،
بلکہ اپنی پوزیشن کو بین الاقوامی سطح پر واضح اور مدلل انداز میں پیش کرنا ہوگا۔
علاقائی رابطوں کو بڑھانا، اقتصادی تعلقات کو متنوع بنانا، اور اندرونی استحکام پیدا کرنا — یہی وہ راستہ ہے جس سے ہم کسی بھی طوفان کا سامنا کر سکتے ہیں۔
جن ممالک نے اپنی پالیسی عوامی شعور کے ساتھ بنائی،
وہ ہمیشہ تاریخ میں سربلند رہے۔
اور جنہوں نے افواہوں کے بادلوں میں حقیقت کھو دی،
وہ وقت کے طوفان میں مٹ گئے۔
لہٰذا آج کے حالات میں سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم پڑھنے، سمجھنے، تحقیق کرنے کی عادت پیدا کریں۔
ہر خبر کو تنقیدی نظر سے دیکھیں، ہر بیان کے پس منظر کو سمجھیں۔
ہمیں اپنی نوجوان نسل کو بتانا ہوگا کہ جنگ کا سب سے بڑا میدان بندوق نہیں — ذہن ہے،
اور جو ذہن سے لڑنا جانتا ہے، وہی سچ مچ کی جنگ جیتتا ہے۔
آخر میں میں اپنے قارئین سے صرف یہ کہنا چاہوں گا:
یہ وقت خوف یا افواہ پھیلانے کا نہیں،
بلکہ دانش، حوصلے اور تدبر سے کام لینے کا ہے۔
ملک کے ادارے متحرک ہیں، قوم باشعور ہے،
بس ہمیں یہ یقین رکھنا ہے کہ ہر طوفان اپنے پیچھے نئی روشنی چھوڑ جاتا ہے۔




