کالمزمظفرآباد

مفتی حافظ نذیر احمد قادری،قابلِ تقلید آفیسر۔

تحریر: محمد زمان سیفی ناظم اعلیٰ اہلسنت رابطہ کونسل آزاد جموں وکشمیر۔

اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسان کو بہترین تقویم پر پیدا فرما کر اپنی قدرت کا شاہکار بنایا ہے۔اربوں کھربوں کی تعداد میں انسانی مخلوق میں سے ہر ایک جدا گانہ انداز کا حامل ہے۔باہمی ربط کی صورت یوں بنائی کہ ہر ایک کو دوسرے کا ضرورت مند بنا دیا۔عالم،غیر عالم،صنعتکار، زمیندار، تاجر اور مزدور سبھی باہم منسلک ہیں۔صلاحیتوں کے اعتبار سے کمی نہ ہونے کے باوجود بعض لوگ سستی و لاپروائی یا غرور و گھمنڈ میں مبتلا ہو کر فرائض منصبی کی بحسن و خوبی انجام دہی میں ناکام ہو جاتے ہیں جبکہ خدا خوفی کے حامل اور اپنے کاز سے مخلص لوگ پوری دیانت داری سے اپنا کام سر انجام دے کر اطمینان قلبی،روحانی سکون اور عوام الناس کی دعائیں سمیٹ کر متعلقہ شعبے سے رخصت ہوتے ہیں۔انیس سو نواسی میں مہاجرین مقیم پاکستان کی نشست پر ضلع و تحصیل مفتیان کرام کے ٹیسٹ انٹرویو میں ٹاپ کر کے ایک سال تحصیل مفتی اور پھر متعلقہ رولز کی بنیاد پر بطور ضلع مفتی(اس وقت آپ کی عمر فقط چوبیس سال تھی،جبکہ پچیس سال ضلع مفتی کی حیثیت سے فرائض سر انجام دیئے) اور دو ہزار سولہ میں بحیثیت ناظم مذہبی امور نو سال فرائض منصبی انجام دے کر دو دسمبر دو ہزار پچیس کو مدت ملازمت مکمل کرنے والے علامہ مفتی حافظ نذیر احمد قادری کا شمار بھی ایسی ہی خوش قسمت شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے ممکن حد تک اپنے عہدے سے انصاف کر کے آنے والوں کے لیے قابلِ تقلید مثال قائم کی۔سیالکوٹ کے ایک متمول کشمیری گھرانے سے تعلق رکھنے والے اس عالم دین کی ایک خوش نصیبی یہ بھی ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کی عظیم علمی،دینی و سماجی شخصیت محدث سیالکوٹی شیخ الحدیث استاذ الاساتذہ حضرت علامہ مولانا حافظ محمد عالم (علیہ الرحمہ) سے شرف تلمذ و دامادی بھی حاصل ہے۔حفظ و قرائت اور مروجہ علوم دینیہ کے ساتھ ساتھ عصری علوم میں اعلیٰ مہارت،انگریزی زبان روانی سے بولنے اور دور جدید کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے گفتگو کی صلاحیت نے آپ کو ہر طبقے میں مقبول بنائے رکھا۔ریٹائرمنٹ کے بعد بڑے خوش اخلاق، دینی لباس میں ملبوس تسبیح ہاتھ میں لیے بظاہر پیکر عجز و انکسار اور عابد و زاہد نظر آنے والے اکثر بیوروکریٹس دوران سروس نخوت و رعونت اور کبر و غرور کا مرقع ہوتے ہیں،عوام سے حسنِ سلوک تو ان کی ڈکشنری میں ہی نہیں ہوتا(الا ماشائاللہ) اس کے برعکس ماتحت ملازمین اور عوام الناس کے ساتھ مفتی صاحب کا مشفقانہ رویہ اعلیٰ ظرفی کی دلیل ہے،بالخصوص ماتحت ملازمین کے عشروں پر محیط مسائل حل کر کے اپنے لیے دائمی دعاؤں کا اہتمام کر دیا۔بلا تخصیص مسلکی و سیاسی وابستگی علماء کرام و مشائخ عظام بلکہ ہر آنے والے کی عزت افزائی آپ کا وطیرہ رہا۔دو ہزار سولہ میں جب آپ نے مذہبی امور کی نظامت سنبھالی تو محکمہ عجیب قسم کے جمود کا شکار تھا،عرصہء دراز سے جو جہاں جیسا ہے کی بنیاد پر چلنے والے محکمے میں آپ نے ایک نئی روح پھونک دی۔متعدد امور میں اصلاحات اور محکمہ کو اس کی اصل نہج پر لا کر کئی سالوں سے طاری جمود کا خاتمہ کیا۔بعض حضرات نے کیے گئے اقدامات مفصل تحریر اور آپ کے اعزاز میں منعقدہ تقاریب میں بیان کیے ہیں جنہیں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ہر قدم اپنی اپنی جگہ پر اہم اور آپ کی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہا ہے،ان میں سر فہرست تجوید القرآن ٹرسٹ کے تحت چلنے والے مدارس میں خاطر خواہ اضافہ ہے۔قیام سے لے کر آپ کے نظامت سنبھالنے تک چھ سو ستاون مدارس کی تعداد میں آپ نے جہد مسلسل سے چند سالوں کے اندر تیرہ سو بیس مدارس کا اضافہ کر دیا جو ایک ریکارڈ تعداد ہے نیز قراء کرام کا اعزازیہ بڑھانے میں بھی آپ کا کلیدی کردار ہے۔مدارس کی منظوری کا عمل شفاف بنانے کے لیے متعلقہ ضلع مفتی کی سربراہی میں قائم کمیٹی کی رپورٹ کو بنیاد بنا کر مسلکی اختلاف کا سرے سے ہی خاتمہ کر دیا،ممکن حد تک سیاسی عمل دخل بھی نہیں ہونے دیا۔ایک دلیر و دبنگ آفیسر ہونے کی حیثیت سے اصولوں پر قائم رہے،سینئرز کے احترام کے باوجود اصولی اختلاف میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ ہی عالمانہ وقار کو ٹھیس پہنچنے دی۔حاصل شدہ اختیارات کو جائز انداز میں کھل کے استعمال کیا۔مجموعی طور پر اپنے چھتیس سالہ دور میں یادگار اور قابلِ رشک طریقے سے سروس انجام دی ہے۔انہی خوبیوں کی بدولت بھمبر سے نیلم تک ہر مکتبہ فکر آپ کو خراجِ تحسین پیش کر رہا ہے، جس کے لیے ریاست بھر میں تقاریب منعقد ہو رہی ہیں۔فقیر کی یادداشت کے مطابق بوقت سبکدوشی اس طرز کا خراجِ تحسین قبل ازیں کسی اعلیٰ ترین بیوروکریٹ کو بھی میسر نہیں ہوا۔عوام الناس بطور خاص علماء و مشائخ کا ردعمل ظاہر کر رہا ہے کہ اگر کوئی اپنے عہدے سے انصاف کرے تو مخلوق خدا اسے سر آنکھوں پر بٹھانے کے لیے تیار ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ہر ایک کو انفرادی طور پر خوش رکھنا ممکن ہی نہیں تاہم اجتماعی طور پر عوام الناس کی بھلائی کے اقدامات انسان کو دوسروں کے دلوں میں ھمیشہ زندہ رکھتے ہیں۔سرکاری منصب سے سبکدوش ہونے کے باوجود بھی فروغِ تعلیم قرآنِ کریم،باہمی رواداری، فرائضِ منصبی کی دیانتدارانہ انجام دہی، ماتحت ملازمین سے شفقت و مہربانی،بلا تفریق مسلکی و سیاسی وابستگی ہر ایک سے معاملات میں یکساں سلوک سمیت متعدد منفرد اقدامات کی بدولت آپ لوگوں کے قلوب و اذہان میں محبت کے ساتھ موجود رہیں گے۔فقیر کی رائے میں مطمئن ضمیر،لوگوں کی دلی دعائیں اور مبنی بر اخلاص خراجِ تحسین سمیٹ کر سبکدوشی ڈی جی ترقیاب ہونے سے کہیں زیادہ بہتر ہے اگر چہ آپ کا یہ حق تھا جس میں متعلقہ حکام کی طرف سے افسوس ناک کوتاہی کی گئی۔سروس کی باعزت تکمیل پر مبارکباد اور نیک تمناؤں کے اظہار کے ساتھ ساتھ فقیر مرکزی تقریب میں زبانی پیش کی گئی اپنی تجویز تحریری صورت میں دہرانا مناسب سمجھتا ہے کہ سرکاری نشست پر چھتیس سالہ دور ملازمت کے بعد اب اپنی مادر علمی عظیم مرکز علوم وفنون جامعہ حنفیہ دو دروازہ سیالکوٹ کی مسند تدریس پر متمکن ہوں تاکہ اس میدان میں بھی آپ کا فیض جاری ہو،تشنگانِ علوم دینیہ آپ کی بہترین علمی صلاحیتوں سے مستفید ہوں اور آپ کی مادر علمی کا آپ پر حق کسی نہ کسی حد تک ادا ہو سکے۔ فقیر کی دانست میں کسی بھی استاذ کا سب سے بڑا فیض یہی ہے کہ وہ قرآنی اصولوں حکمت و موعظۃ حسنہ کو مدنظر رکھتے ہوئے بلا خوف لومۃ لائم حق بیان کرنے اور باطل کو للکارنے والے غیرت مند تلامذہ تیار کرے اور ایسا وہی کر سکتا ہے جو خود بھی ان صفات سے متصف ہو اور حضرت مفتی قاری حافظ نذیر احمد قادری (متعنا اللّٰہ تعالیٰ بطول حیاتہ)میں کافی حد تک یہ صفات موجود ہیں۔اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے حبیب مکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم اور دیگر پیاروں کے طفیل حضرت مفتی صاحب کی جملہ خدمات کو شرفِ قبولیت اور انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد۔

Related Articles

Back to top button