کالمزمظفرآباد

آزاد کشمیر میں با اختیار لیگل کمیٹی اور بے موقع بیان بازوں کی خدمت میں چند گزارشات۔

تحریر:شریف اعوان

ہم سب کے علم میں ہے کہ ان دنوں اعلیٰ سطحی مذاکراتی کمیٹی کی طرف سے قائم لیگل کمیٹی اہم امور پر فیصلوں کے مطابق تیزی سے کام کر رہی ہے۔یہ انتہائی حوصلہ افزا پیش رفت اور سنجیدہ کوشش ہے۔ذمہ دار قوم کی حیثیت سے اس صورتحال پر اللّٰہ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ مہاجرین کی نشستوں کے مستقبل کے بارے میں نازک اور حساس معاملہ بھی زیر غور ہے۔ ویسے تو سچ ہے جس کا کام اسی کو ساجھے۔لیکن ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اپنی دانست کے مطابق ایک تجویز سامنے لاتا ہوں۔ راقم کی رائے ہے کہ آزاد کشمیر مہاجر کیمپوں اور خیمہ بستیوں میں قیام پذیر مہاجرین، جن میں جموں اور کشمیر تقریبا ہر جگہ کے افراد موجود ہیں، ان کے مسائل روزانہ اخبارات کی زینت بن رہے ہیں۔ بہتر ہوگا ان سارے کیمپوں پر مشتمل آبادی کے دو حلقہ انتخاب بنائے جائیں جس پر الیکشن اپنوں میں سے کوئی لڑے اور مؤثر نمائندگی کرے۔اس سے نمائندگی مہاجرین کی اسمبلی میں موجود ہوگی۔ٹینڈرز بھی ملیں گے۔ آباد کاری بھی ساتھ ساتھ ممکن ہو سکے گی۔ کیمپوں کے مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ پاکستان میں موجود ممبران کی آبادی یا ووٹوں کے تناسب سے صرف چار حلقے رکھے جائیں۔ اس طرح مہاجرین جموں و کشمیر کی آواز یعنی نمائندگی اسمبلی میں برقرار رہے گی۔ البتہ چونکہ پاکستان میں مقیم کشمیریوں کے مسائلMPA, MNA اور کونسلرز ساتھ ساتھ حل کر رہے ہیں۔ جہاں کوئی کمی ہو تو یہ نمائندے پاکستانی نمائندوں سے رابطہ کر سکیں گے۔ اس طرح یہ ایم-ایل-ایز وزیر بھی بن سکیں اور ان کے تحت ضابطہ مراعات بھی حاصل کریں۔ البتہ حلقے کے نام پر فنڈز نہ دیئے جائیں، کیونکہ اصل تنازعہ فنڈز کا ہی ہے، وہ ختم ہو سکتا ہے۔قرین انصاف بھی نہیں ہے کہ 50 ہزار ووٹوں کے حلقوں اور 772, ایک دو ہزار ووٹوں کے حلقے کے لیے برابر فنڈز چاہیں۔ یہ سیاسی فیصلے ہیں۔جو اکثر حکومت سازی اور حکومت کو دوام بخشنے کے لیے کیے جاتے رہے۔ پیسہ عوام کا ہوتا ہے مفاد مخصوص سیاسی ٹیم کا ہوتا ہے۔اب مناسب ہوگا کہ دونوں طرف سے بے بنیاد تلخ بیان بازی کا سلسلہ بند کر دیا جائے۔
قارئین کرام! اب کچھ گزارشات تعلیمی بورڈز کے دیرینہ اور انتہائی اہم کام کا تاخیر سے ہی سہی۔ چلیں دیر آئے درست آئے۔اس فیصلے پر بعض احباب اور بالخصوص میرپور ضلع سے تعلق رکھنے والے ہمارے بھائی اس فیصلے کو ضلع میرپور کے خلاف تعصب قرار دیتے ہیں۔بعض سیاسی ورکرز عجیب بیانات دیتے ہیں، جو بورڈ کے کام سے نہیں صرف نام سے واقف ہیں وہ لکھتے ہیں کہ بورڈ اچھی تعلیم دے رہا ہے، وغیرہ وغیرہ ایسے حضرات سے گزارش ہے کہ تعلیمی بورڈز کا کام آبادی کے اضافہ سے مزید بورڈز کی جوازیت مہیا کرتا ہے۔آزاد کشمیر چھوٹا سا پوائنٹ ہے۔ مظفراباد میں اس کا دارالحکومت ہے۔ ایک ہی معیاری یونیورسٹی قائم رہ سکتی تھی۔ ایک ہی اعلی معیار کا میڈیکل کالج مناسب ہوتا مگر ہوا یہ کہ ہر ضلع میں یونیورسٹی قائم ہو گئی۔اور ہر ضلع میں میڈیکل کالج کا قیام ہمارے سیاستدانوں کا خواب ہے۔ یہ قومی اور اجتماعی فیصلے نہیں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود میرپور بورڈ سے متعلق بیان بازی پر زور دینے کی بجائے گزشتہ سالوں کا ریکارڈ دیکھ لیں کہ راولاکوٹ یا مظفرآباد نے اس پر بیان بازی کی ہو، بالکل نہیں۔ جو ہو رہا ہے ساری قوم دیکھتی ہے۔ میرپور ہمارا قابل قدر امیر ترین ضلع ہے۔ وہاں رکشہ ڈرائیورز، فوٹو اسٹیٹ والوں یا ہوٹل والوں کی آمدن میں معمولی کمی واقع ہونے سے کوئی قیامت نہیں آئے گی۔بورڈز کا فیصلہ تو ہو چکا ہے اس پر اب طبع آزمائی کا نفرت کے سوا کوئی تاثر نہیں ملتا۔بصد افسوس کہ ہم نہ دین کے نام پر مسلمان قوم بن سکے ہیں، اور نہ جغرافیائی بنیاد پر کشمیری قوم بن سکے ہیں۔ یہ معمولی بات نہیں اس میں ہمارے سیاسی قائدین کو بھی اپنا رویہ درست کرنا چاہیے۔یہ علاقائی، قبائلی یا ضلعی تعصب کا نوٹس کوئی لیتا نہیں بلکہ حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ ہم نئی نسل کو کیا دے رہے ہیں۔ میری غیر جانبدار تجاویز ہیں میں پارٹی نہیں ہوں۔میرپور ضلع میں اعلی سیاسی قیادت اور اعلی تعلیم یافتہ لوگ موجود ہیں۔ پوری دنیا کے معیار کو دیکھنے کا تجربہ رکھنے والے موجود ہیں۔ ایسے میں گلی محلے سے بیان بازی اچھی نہیں لگتی۔ پھر بعض سیاسی ورکرز پارٹی کے عہدہ رکھنے والے بورڈ سے متعلق بیان دیتے ہیں کیا کوئی پارٹی صرف ضلع کی ہے۔کیا کسی سیاسی پارٹی کی پالیسی ہے کہ وہ ایسے علاقوں کے مفاد کو مدنظر نہ رکھیں جو دشوار گزار ہیں۔بورڈ کسی ایک ضلع کے فنڈز نہیں دیتا۔
آخر میں ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران سے ایک دفعہ پہلے بھی کسی کالم میں گزارش کی تھی کہ آزاد کشمیر کی عوام نے خلافِ توقع آپکے جائز مؤقف کی بھرپور تائید کی۔ثابت قدمی دکھائی۔اور تاریخی نوعیت کا مظاہرہ کیا۔اب آپ تاجر بھائیوں سے اپیل کریں کہ ہماری چمڑی کا خیال رکھیں۔اخبارات میں مہنگائی کا عذاب نازل ہونے کی خبریں ڈرا رہی ہیں۔ گو اس ضمن میں اصل ذمہ داری حکومت کی ہے جو ان دنوں چھٹی پر ہے۔

Related Articles

Back to top button