
قارئین کرام! آزاد کشمیر کے عوام کے حافظے عام طور پر ایسے ہیں۔ کہ اکثر واقعات بھول جاتے ہیں۔ جس کا فائدہ ہمارے سیاسی قائدین اٹھاتے ہیں۔ مگر آزاد کشمیر حکومت کے موجودہ جاری دورانیہ میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ جو ناقابل فراموش ہیں۔ اور یاد رکھنے اور ان سے سبق سیکھنے کے قابل ہیں۔ ابتداء الیکشن کے بعد جناب نیازی صاحب کی بطور وزیراعظم پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے نامزدگی سے ہوئی۔ اس شریف،سادہ اور نا تجربہ کار کو جلدی آؤٹ کر دیا گیا۔ اس کی جگہ انتہائی ہوشیار اور بااثر شخصیت جناب تنویر الیاس کو موقع دیا گیا۔ جو سرکاری خزانے پر بوجھ نہیں تھا۔ بلکہ بعد میں ان کے بیانات سے لگتا تھا کہ ان کے سرمائے پر اور بہت سے سیاستدانوں کے چولہے بھی جلتے ہیں۔ موصوف نے تھوڑے ہی عرصے میں بلدیاتی الیکشن 31 سال بعد کروا کر سنہری کارنامہ انجام دیا۔ یہ کام بڑے پائے کے سیاسی حکمران کئی بار اعلانات کے باوجود انجام نہیں دے سکے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں اس نظام کو ابھی تک اصل مقاصد کے ساتھ کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔ اس کی وجہ بھی سب کے علم میں ہے کہ فنڈز اسمبلی ممبران خود تقسیم کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ان کا کام قانون سازی ہے۔ بہرحال عدالتی فیصلہ کی زد میں آنے کے باعث تنویر الیاس صاحب کو کام کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ ان کے بعد تیسرے وزیراعظم کے انتخاب کی شاید پوری دنیا میں مثال نہیں ملتی کہ اپنا اپنا منشور اور دستور رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کی ایسی یکجہتی دیکھنے میں آئی کہ کل 53 ممبران میں سے شاید 48 ممبران نے متفقہ طور پر جناب انوار الحق کا انتخاب کیا۔ایسا مثالی الیکشن نہ کبھی پہلے ہوا اور نہ آئندہ ہوگا۔
تمام جماعتیں اس خوش قسمت وزیراعظم کو کی حکومت میں شامل ہو گئیں۔ اتنی بڑی اتحادی حکومت عوام کے مفاد کی بجائے زیادہ تر ذاتی مفاد کے تحفظ میں مصروف ہو گئی۔ جس کا رد عمل عوامی ایکشن کمیٹی کی سرپرستی میں سامنے آیا۔ یہ رد عمل بھی ناقابل فراموش ہے۔اتنا منظم اور شدید عوامی ایکشن پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔،
5،6 روزہ ہڑتال نے آزاد کشمیر کو جام کر کے رکھ دیا۔ جس پر حکومت پاکستان کو بڑے بھائی کا کردار اور ادا کرنے کی نوبت آئی۔ تفصیلات کا سب کو علم ہے۔ ایک بات یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ ایکشن کمیٹی کے اکثر مطالبات تقریبا ہر آدمی کی دل کی آواز لگتے تھے اور اس بات کی دلیل تھے کہ عوام کی موثر نمائندگی نہ ہونے کے باعث محرومیوں کار رد عمل تھا۔ خیر اس دوران ناخوشگوار واقعات بھی ہوئے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 48 ممبران کی متفقہ حکومت کے دوران ایسا کیوں ہوا؟ دلچسپ صورتحال اس وقت سامنے آئی جب منتخب نمائندے ذاتی مراعات کے خلاف احتجاج پر سیخ پا ہو کر فریق بنتے نظر آئے۔ سیاسی جماعتیں گو مگو کا شکار ہو کر اس کے بعد کبھی حکومت سے الگ ہونے کا اعلان کرتی ہیں۔ کبھی کیا کیا اعلانات کرتی ہیں۔ بعض جماعتوں کی قیادت کے فیصلوں کی حکومت میں جھنڈی برادر حضرات نے ذرا اہمیت نہیں دی۔ بعض ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں۔
قارئین کرام! عوامی ایکشن کمیٹی کے تسلیم شدہ مطالبات کی ضامن حکومت پاکستان ہے۔ ان پر کام جاری ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں کو اپنے انجانے میں دیے گئے ووٹ کی اہمیت یاد نہ رہی اور وہ موجودہ وزیراعظم کو آؤٹ کرنے کی مہم کا حصہ بن گئی۔ مقدر کے سکندر ہیں موجودہ وزیراعظم جو اپنی وکٹ پر فلحال ڈٹے ہوئے ہیں۔ اگے دیکھتے ہوتا کہ ہے کیا؟ موجودہ وزیراعظم کی یادگار کارناموں میں خود تنخواہ اور مراعات نہ لینا اچھی روایت ہے۔ ویسے بھی امیر ترین شخصیت کو سرکاری مراعات کی کیا ضرورت تھی؟ البتہ تمام شعبہ جات کے امور پر مسلسل پابندی لگائے رکھنا اچھا اقدام نہیں تھا۔ صرف ایک مثال پر غور کریں کہ سرکاری اور پرائیویٹ جنگل پر غیر ضروری پابندی کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ اس لیے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ باتیں بہت کرتے ہیں عملا حکومت کرنے کے لیے انہو نے No Work No Mistake کا فارمولا اپنائے رکھا۔ اپنے خواب تو پورے کرتے رہے مگر عوام کی محرومیوں میں اضافہ شدید رد عمل کا حصہ بنا اور اب ان کی رخصتی کا سبب بھی نظر ارہا ہے۔ خدایہ بہتر جانتا ہے اگرچہ بعض صاحب الرائے حضرات بار بار وزیراعظم کے بدلنے کے عمل کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ اس کی بجائے سارے جس طرح حکومت میں شامل تھے بلکہ ہیں مل کر ملک اور عوام کے لیے کسی اچھی تبدیلی کا باعث بنتے۔
قارئین محترم! ان دنوں ہیلتھ کارڈ کے اجراء کی طرح حکومت دیگر کچھ اعتماد کی طرف بھی توجہ دینے لگی ہے۔ لیکن یہ ساری باتیں ایکشن کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے تسلیم شدہ باتوں کا حصہ ہیں۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے علاوہ بھی مختلف ملازمین کی تنظیمیں بھی اس دور میں ہڑتالوں پر ہی رہیں۔ یہاں تک کہ پولیس فورسز لازمی سروس والوں کی ہڑتال بھی ریکارڈ ہے۔ موجودہ وزیراعظم صاحب اپنے موقف کے بڑے پکے نکلے جو جائز بات بھی اگر نہیں تسلیم کی۔ تو اس پر ڈٹے رہے۔ اس کی وزیراعظم پاکستان نے ملازمین کے لیے اضافے کا اعلان کیا۔ سارے پاکستان میں ملازمین کو مل گیا مگر ہمارے وزیراعظم نے بقایا جات کی ادائیگی کی جائز بات کی کوئی پرواہ نہ کر کے اپنی ریاست کے ملازمین کے ساتھ زیادتی کی۔ حالانکہ اس کے لیے حکومت پاکستان کے رقم بھی دی ہوئی تھی۔ اسی طرح پینشن کے سلسلے میں پاکستان کے چاروں صوبوں سے ہٹ کر پابندیاں ں لگا کر مظلوم ملازمین کی دعائیں نہ لے سکے۔ ورنہ شاید یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ یہ ساری باتیں سیاسی تاریخ میں کبھی نہ بھولنے والے واقعات کا حصہ ہیں۔ نامعلوم اگلے چند دنوں میں کیا ہونا ہے۔ لیکن ہماری سیاسی قیادت کو جائز اور ناجائز کا فیصلہ کر کے خود احتساب بھی کرتے ہوئے درست فیصلہ کرنے چاہییں۔ ورنہ عوام اور سیاست دانوں کے درمیان دوریاں بڑھتی جائیں گی جس کا انجام کسی لحاظ سے بھی اچھا نہیں ہوگا۔ ہر شعبے کو اپنی اپنی اصلاح پر توجہ دینی چاہیے۔ ہم دل و جان سے اپنے قائدین کا احترام کرتے ہیں۔ مگر انہیں بھی اپنی ذات سے باہر نکل کر سوچنا ہوگا۔ عوام حیران ہیں کہ قائدین نئے ریکارڈ بنانے میں مصروف ہیں۔ جس میں پارٹیاں بدلنے کا ریکارڈ دلچسپ ہے۔ دیکھتے ہیں کون بازی لے جائے گا۔ اپنے نمائندگان کی خدمت میں گزارش ہے کہ پھر ہمارے پاس آئیں۔ جی آیا نوں! ہم انہیں کھلے دل سے قبول کریں گے۔ پھر کندھوں پر اٹھائیں گے۔ لیکن خیال رکھیں کہ عوام اب پہلے جیسی نہیں، انھیں ساری باتوں کا علم ہو گیا ہے۔ اب نمائندگی عوام کی کرنی پڑے گی۔
٭٭٭٭٭٭




