کالمز

محمد نواز شریف — بصیرت، تدبر اور قومی قیادت کا مسلسل سفر

1971 کے بعد کی نصف صدی کی سیاست اور قیادت کا جائزہ لیتے ہوئے یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ پاکستان نے بڑے نشیب و فراز دیکھے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے دکھ سے لے کر آئینی ارتقا، سیاسی دھچکوں، جمہوری انحرافات اور قومی تعمیرِ نو تک، کئی کردار ابھرے اور ماند پڑ گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید پاکستانی سیاست کے افق پر ایک عظیم اور بلند قامت رہنما کے طور پر سامنے آئے جنہوں نے کرشماتی سیاست اور جرأتِ اظہار کے ساتھ تاریخ میں گہری چھاپ چھوڑی، مگر ان کی معاشی و سیاسی پالیسیوں پر تنقید بھی کم نہ تھی۔ 1980 کی دہائی 1985 سے 2025 تک کا سفر اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی مستقل، ہمہ وقت موجود اور اثر انگیز شخصیت کا محتاج ہے تو وہ بلاشبہ محمد نواز شریف ہیں ا یک ایسا رہنما جو سیاست، معیشت، انتظامی ڈھانچے، خارجہ وژن اور قومی بیانیے کے حوالوں سے مسلسل ارتقا پذیر رہا، اور جس کی قیادت کا دائرہ آج تک کسی نہ کسی صورت میں قومی منظرنامے پر غالب دکھائی دیتا ہے۔ نواز شریف کا سیاسی ابھار محض اقتدار کا جہانگیری سفر نہیں بلکہ ریاست سازی کا ایک بھرپور بیانیہ ہے۔ صنعتکارانہ پس منظر، نظم و نسق کی مضبوطی اور معاشی ترقی کا میلان ان کی سیاست کا بنیادی فریم ورک رہا۔ 1990 کی دہائی میں اُن کے معاشی ایجنڈے نے ملک کو صنعتی وسعت، موٹر وے جیسے تاریخی منصوبوں اور سرمایہ کاری کی نئی راہوں سے روشناس کرایا۔ جمہوریت کے تسلسل کی جدوجہد نواز
شریف کی سیاست کا لازمی عنوان رہا۔ بارہا اقتدار سے محرومی اور انتقامی کارروائیوں کے باوجود ان کی سیاست کا مرکز پاکستان کی سول بالادستی، ادارہ جاتی ہم آہنگی اور معاشی استحکام ہی رہا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ملک سیاسی انتشار کا شکار ہوا، نواز شریف کی معتدل، ادارہ دوست اور ترقی پر مبنی سوچ ایک بڑے طبقے کو اپنے گرد متحد کرتی رہی۔2024 سے پاکستان میں ایک نئے سیاسی و انتظامی سفر کا آغاز ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب کئی برس کی بے سمتی، سیاسی محاذ آرائی، معاشی ابتری اور ریاستی نظام کی تھکن کے بعد ملک کو ایک مرکزیت یافتہ قیادت کی ضرورت تھی۔ اس ماحول میں نواز شریف کا وژن، شہباز شریف کی انتظامی صلاحیت، مریم نواز شریف کی نئی سیاسی توانائی، اسحاق ڈار کی معاشی بصیرت،بین الاقوامی تعلقات پر مشتمل خارجہ پالیسی اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قومی سلامتی کے محاذ پر غیر معمولی کامیابیاں —سب ایک مشترکہ قومی مقصد کے تحت ہم آہنگ دکھائی دینے لگیں۔ وفاق میں شہباز شریف کی حکومت نے وہی روایتی حسنِ کارکردگی دکھایا جس کے وہ ہمیشہ سے شناور رہے ہیں۔ توانائی، قانون و نظم، اقتصادی نظم و نسق اور پالیسی پر مبنی گورننس—یہ سب شہباز شریف کی سیاسی شناخت بن چکے ہیں۔ 2024–2025 میں یہ اندازِ حکومت واضح طور پر پورے وفاقی نظام میں جھلکتا ہے۔ پنجاب میں محترمہ مریم نواز شریف کی قیادت پاکستانی سیاست میں ایک نئی جہت کی تشکیل ہے۔ تعمیرِ نو کے منصوبے، عوامی ترقیاتی حکمت عملی، خواتین کے لیے پالیسی اقدامات، صحت و تعلیم میں اصلاحات اور نوجوانوں کے لیے جدت پر مبنی پروگرام—یہ سب اُن کے وژن کو جدید اور ہم عصری سیاست کے قریب تر ثابت کرتے ہیں۔ خارجہ امور میں اسحاق ڈار کی مؤثر حکمت عملی نے پاکستان کی سفارتی تنہائی کا خاتمہ کیا، عالمی مالیاتی اداروں سے پیچیدہ مذاکرات کو توازن بخشا اور پاکستان کا بیانیہ عالمی فورمز پر مؤثر انداز میں پیش کیا۔ معاشی ٹیم کے ساتھ ان کی ہم آہنگی نے اس حقیقت کو بھی مضبوط کیا کہ پاکستان کا مستقبل سفارت، معیشت اور پالیسی کے باہمی ربط سے وابستہ ہے۔ 2024–2025 میں پاکستان کے ریاستی ڈھانچے کو سب سے زیادہ استحکام، اعتماد اور وقار اُس وقت ملا جب پاک فوج کی قیادت فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ہاتھوں میں آئی۔ ان کی حکمت عملی میں ایک طرف دہشت گردی کے خلاف واضح، دوٹوک اور زیرو ٹالرنس کا اصول شامل رہا، تو دوسری طرف قومی اتحاد، سیاسی اعتدال اور ریاستی بیانیے کی حفاظت کا عنصر بھی نمایاں رہا۔ سرحدی تحفظ، اندرونی سکیورٹی، معاشی سلامتی کا بیانیہ، اسٹریٹجک پالیسی فریم ورک، خطے میں بدلتی صف بندیوں کا ادراک اور عالمی منظرنامے کے مطابق فیصلہ سازی—یہ سب عاصم منیر کی قیادت کی امتیازی شناخت بن چکی ہیں۔ ان کی کامیابیوں نے اس بیانیے کو مزید تقویت دی کہ پاکستان میں سیاسی قیادت اور عسکری حکمت عملی اگر ہم آہنگ ہو جائے تو ریاست کو استحکام اور اعتماد میسر آتا ہے۔بھارتی جارحیت کا جواب بنیان۔ المنصور اور معرکہ حق کا کامیابی نے نہ صرف بھارت کے جنگی غرور و تکبر توسیع پسندانہ عزائم کو خاک میں ملا کر اقوام عالم میں پاکستان کے عوام اور عساکر کی دھاک بٹھادی۔ 2024 اور 2025 کا سیاسی توازن اس حقیقت کی زندہ تصویر ہے کہ نواز شریف آج بھی پاکستان کی پالیسی سمت کے حقیقی معمار ہیں۔ اُن کا وژن تین بنیادی ستونوں پر قائم ہے:
1. معاشی استحکام بطور قومی سلامتی
سرمایہ کاری، انفراسٹرکچر، براہِ راست صنعتی نمو اور عوامی فلاح کے منصوبے ہمیشہ اُن کے ایجنڈے کا مرکز رہے ہیں۔
2. جمہوری تسلسل اور ادارہ جاتی ہم آہنگی
ان کا سیاسی فلسفہ سیاسی ٹکراؤ کے بجائے سیاسی استحکام کے گرد گھومتا ہے۔
3. قومی مفاہمت اور داخلی اتحاد
وہ پاکستان کے مستقبل کو سیاسی مکالمے، درمیانی راستے اور قومی ہم آہنگی کے بغیر نامکمل سمجھتے ہیں۔
یہی وہ عناصر ہیں جنہوں نے 2024–2025 کی سیاسی ترتیب میں نواز شریف کو وہ کردار عطا کیا جو شاید پاکستان کی تاریخ میں بہت کم رہنماؤں کے حصے میں آیا ہے—یعنی پسِ پردہ رہ کر بھی ریاست کی سمت کا تعین کرنے کی توانائی۔
2025 کا پاکستان اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ قومی قیادت اگر وژن، تجربے اور ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھے تو ریاست نہ صرف بحرانوں سے نکل سکتی ہے بلکہ عالمی سطح پر اپنی حیثیت بھی مضبوط بنا سکتی ہے۔ نواز شریف کا تدبر، شہباز شریف کی انتظامی مہارت، مریم نواز کی جدید سیاسی سوچ، اسحاق ڈار کی معاشی و سفارتی حکمت عملی اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی جراتمندانہ سلامتی پالیسی یہ سب مل کر ایک ایسے پاکستان کی بنیاد رکھ رہے ہیں جو نہ صرف سیاسی استحکام بلکہ معاشی قوت، امن، ترقی اور باوقار خارجہ پالیسی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مستقبل کا پاکستان اسی ہم آہنگ قیادت، اسی اعتدال پسند روایت اور اسی وژن سے روشن ہے جس کا مرکز محمد نواز شریف ہیں ایک ایسی قیادت جو نصف صدی سے قوم کی فکری ڈور تھامے ہوئے ہے اور آج بھی پاکستان کے لیے امید اور استحکام کا سب سے بڑا حوالہ ہے۔

Related Articles

Back to top button