
صاحبو! اس دنیا میں بہت سے لوگوں کو دل کے نہال خانوں سے چاہا۔کچھ انسان ایسے ہر دلعزیز اور با اخلاق ہوتے ہیں کہ ان کے دشمن بھی ان کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ سردار جاوید ایوب مظفرآباد کے حلقہ کوٹلہ میں ایک متوسط مگر شریف گھرانے میں تولد پذیر ہوئے۔ عاجز اتنے ہیں کہ اگر کسی سے اختلاف بھی کر رہے ہوں تو لگتا ہے کہ مخاطب سے معذرت طلب کر رہے ہیں۔جاوید ایوب سے میری شناسائی جامعہ کشمیر کے دوران ہوئی جب میں یونیورسٹی میں پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کا صدر تھا۔ جاوید ایوب خود بھی سٹوڈنٹ پالیٹکس کے بادشاہ تصور کئے جاتے ہیں۔ طلباء کے درمیان اختلاف ہو یا کسی مسئلے کا حل جو بظاہر نا ممکن ہو سردار جاوید ایوب اسے چٹکیوں میں حل کر دینے کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔
سردار جاوید ایوب نظریاتی طور پر بھٹو ازم کے پر ستار ہیں۔ عدی فریال تالپور، چئیرمین بلاول بھٹو زرداری اور صدر پاکستان محترم آصف علی زرداری کے معتمد خاص سمجھے جاتے ہیں۔ آزاد کشمیر پیپلز پارٹی میں سردار جاوید ایوب کو ڈرائینگ روم کی سیاست کا ماہر اور ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ ان کی نرم گفتار طبع،خوش اخلاقی اور عاجزی ان کو دوسرے سیاستدانوں سے ممتاز رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر اور پاکستان میں سردار جاوید ایوب کے بے شمار چاہنے والے موجود ہیں۔ابتداء میں سردار جاوید ایوب بلدیاتی ممبر منتخب ہوئے اور چئیرمین کے عہدے پر متمکن ہوئے۔یوں انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز اگرچہ زمانہ طالب علمی سے ہی شروع کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ نچلی سطح کے الیکشنز میں بھی عوام کی توقعات پر پورا اترے اور سرخرو ہوئے۔ قانون ساز اسمبلی کے پہلے دو الیکشنز میں سردار جاوید ایوب نے بہت کم مارجن سے ایک دفعہ مسلم کانفرنس کے میر علی اکبر مرحوم سے شکست کھائی اور دوسری دفعہ محترمہ نورین عارف صاحبہ(باجی) سے شکست کھائی۔ میں اس بات کا چشم دید گواہ ہوں کہ جب اس فقیر منش انسان نے محترمہ نورین عارف سے الیکشن ہارا تو قافلے سے اتر کر خود محترمہ کو باجی پکار کر کامیابی کی مبارک باد دی۔
اس کے بعد سردار جاوید ایوب کی کامیابی کے ستارے گردش میں آگئے۔ مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ آزاد کشمیر پیپلز پارٹی کے سابق صدر جنہیں لوگ کشمیر کے بھٹو کے نام سے یاد کرتے ہیں یعنی صاحبزادہ اسحٰق ظفر صاحب سے جاوید ایوب کے بھائیوں جیسے مراسم تھے۔ صاحبزادہ صاحب بھی ہر اہم مسئلے پر قائد نوجونوانان سردار جاوید ایوب سے مشاورت کیا کرتے تھے۔ اکثر لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ سردار جاوید ایوب سولن راجپوت قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔مجھے بھی اس کا اندازہ نہ تھا لیکن صاحبزادہ صاحب اکثر جاوید ایوب کو راجہ صاحب کہا کرتے تھے۔ میرے استسفار پر صاحبزادہ صاحب نے بتایا کہ جاید ایوب سولن راجپوت ہے لیکن خاندانی ادب اور احترام کی وجہ سے ان کی فیملی کے ساتھ سردار لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔
جاوید ایوب نے قانون ساز اسمبلی کے پہلے الیکشن میں کامیابی حاصل کی تو انہیں ان کیاہمیت اور حیثیت کے پیش نظر وزارت جنگلات کا منصب عطا کیا گیا۔ اس منصب کو انہوں نے انتہائی دیانت داری اور فرض شناسی سے نبھایا اور جنگلات کی آمدنی سے ریاست کو بے انتہاء فائدہ پہنچایا۔ اکثر لوگوں کے خیال کے مطابق سردار جاوید ایوب نے پہلی دفعہ آزاد ریاست میں جنگلات کے تحفظ اور ان کی بہتری کے لئے نئی نئی پالیسیز بنائی اور حکومت کو جنگلات کی مد سے کروڑوں روپوں کا فائدہ پہنچایا۔یاد رہے کہ وزیر جنگلات کے بڑے عہدے پر ہونے کے باوجود جاوید ایوب ایک فارسٹ گارڈ سے لے کر عام آدمی تک کے ذاتی مسائل کو خود حل کرنے میں ذاتی دلچسپی رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جاوید ایوب کا گزشتہ وزارت جنگلات کا دور آج بھی لوگ سنہری الفاظ سے یاد رکھے ہوئے ہیں۔
قارئین! جاوید ایوب کے بارے میں اگر میں لکھوں کہ وہ میرے حقیقی بھائیوں کی طرح ہے، ایک بزرگ کی مانند سایہ دار درخت کی طرح ہے اور ایک بہترین استاد کی طرح ہے تو قطعا کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہو گی۔ یقین جانئے میں شائد اتنا نرم گفتار اور با اخلاق نہیں لیکن جو کچھ اچھائی مجھ میں ہے وہ سردار جاوید ایوب کی تربیت کی مرہون منت ہے۔ وزیر جنگلات،چئیرمین بلدیہ،وزیر فشریز و لائیو سٹاک،اور دیگر کئی وزارتوں کے باوجود جاوید ایوب کی جیب میں بعض اوقات ایک دھیلہ بھی نہیں ہوتا۔اتنے بڑے بڑے عہدے رکھنے کے باوجود جاوید ایوب کا دامن اتنا صاف ہے کہ اگر اسے تر کیا جائے تو فرشتے وضوکریں۔ ایک ذاتی گھر کے علاوہ سردار جاوید ایوب کے پاس کوئی ذاتی ملکیت نہیں۔ ان کی ملکیت عوام کی فلاح و بہبود ہے۔ پٹہکہ سے لے کر بھیڑی تک اس شخص نے جگہ جگہ سکولز،ہسپتالز،ریسٹ ہاؤسز اور بے شمار بے روز گار نوجونوں کو روزگار دلوایا۔ موجودہ سپیکر اسمبلی چوہدری لطیف اکبر اور صدر پاکستان پیپلز پارٹی آزاد کشمیر چوہدری یٰسین کے انتہائی قریبی دوست تصور کئے جاتے ہیں۔
گزشتہ دور حکومت میں یعنی انوار سرکار کے دوران جاوید ایوب محض ایک نوکر تھے۔ بے شک وہ مجھ سے ناراض ہوں لیکن اس دوران وہ صرف تنخواہ اور مراعات کا استعمال کرنے کا حق رکھتے تھے۔ اس بات پر ان سے میری ذاتی طور پر تلخ کلامی بھی ہوئی۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ انوار سرکار نے انہیں چپراسی تک بھرتی کرنے کا موقع نہیں دیا۔لیکن اب چونکہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات جیسے اہم عہدے پر بھی فائز ہیں اور ایک طاقت ور وزارت یعنی جنگلات کے بھی مختار کل ہیں لھذا یہ امید کی جا سکتی ہے کی جاوید ایوب ذوالفقار علی بھٹو کے نظریات یعنی روٹی،کپڑا اورمکان کو ہر گھر کی دہلیز تک پہنچانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ ویسے بھی سردار جاوید ایوب سئنیر پارلیمنٹیرین ہیں اور موجودہ وزیر اعظم راجہ فیصل ممتاز راٹھور ان کے عزیزوں میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ جاوید ایوب صاحب راجہ ممتاز حسین راٹھور کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اس لئے امید کی جا سکتی ہے کہ وزیر جنگلات صرف جنگلات تک محدود نہیں رہیں گے بالکہ فیصل ممتاز راٹھور سے دیگر محکمہ ہائے جات کے کام بھی کروائیں گے۔
شائد ذاتی تعلق کی وجہ سے میں سردار جاوید ایوب کے لئے وہ کچھ تحریر کر گیا جو شائد اتنی بہادری سے کوئی دوسرا نہ لکھ سکتا لیکن یقین کیجئے کہ سردار جاوید ایوب آزاد کشمیر پیپلز پارٹی میں نظریہ ء ذوالفقار کے سب سے بڑے علمبردار ہیں۔ اور وہ عوام اور کارکنان کا اس طرح کیال رکھتے ہیں کیسے کہ کوئی مرغی اپنے بچوں کو مصیبت کے وقت پروں کے نیچے چھپا کر رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ سردار جاوید ایوب کو ملنے والی وزارتوں میں بالعموم سب میں اور بالخصوص جنگلات میں ایسا کام کرنے کی توفیق عطا کرے تا کہ ریاست کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔ اس کے علاوہ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ وزیر موصوف ٹمبر مافیا اور ناجائز جنگلات کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف گھیرا تنگ کریں۔ بالخصوص مخصوص ٹھیکیدران حضرات جو کہ لکڑی کو تھرڈ کلاس کٹیگری میں خریدکر اسے اے کلاس کٹیگری میں فروخت کرتے ہیں ان کے خلاف یقیننا میرا بڑا بھائی کارروائی کرے گا۔ ساتھ ہی ساتھ دیودار کی قیمتی لکڑی کی سمگلنگ کو بھی روکنے میں وزیر جنگلات سردار جاوید ایوب کو آہنی ہتھکنڈے استعمال کرنے ہوں گے۔ اللہ سے دعا ہے کہ میرے استاد،محسن،بھائی اور بزرگ سردار جاوید ایوب کو مزید عزتوں سے نوازے تا کہ وہ غریب اور پسے ہوئے طبقے کی خدمت کر سکیں۔آمین۔



