
قارئین کرام! پاکستان میں ذیابیطس تیزی سے پھیلنے والی بیماریوں میں سرِفہرست ہے۔ بین الاقوامی اور قومی سطح کی مختلف تحقیقات کے مطابق ملک میں بالغ افراد میں ذیابیطس کی شرح 14 سے 17 فیصد کے درمیان ہے، جبکہ قبل از ذیابیطس (Pre-Diabetes) کی شرح تقریباً 11 فیصد تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ عالمی سطح پر جاری انٹرنیشنل ڈائبٹیز فیڈریشن (IDF) کے ایٹلس 2024ء کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد تقریباً 3 کروڑ 45 لاکھ ہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ شرح والے ممالک میں سے ایک ہے۔ ملک کی کل آبادی کا تقریباً چوتھائی حصہ (26٪) اس بیماری سے متاثر ہے، جبکہ ماہرین کے مطابق ایک بڑی تعداد اپنی بیماری سے لاعلم رہتی ہے، جس کے باعث پیچیدگیوں اور اموات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔آزاد جموں و کشمیر میں کیے گئے جائزہ کے مطابق، یہاں بالغ آبادی میں ذیابیطس کی شرح تقریباً 17 فیصد پائی گئی ہے، جبکہ 13 فیصد افراد میں نئی تشخیص شدہ (Newly Diagnosed) کیسز سامنے آئے ہیں۔ شہری علاقوں میں یہ تناسب دیہی علاقوں کے مقابلے میں زیادہ ہے، جس کی بڑی وجوہات غیر متوازن خوراک، جسمانی غیر فعالیت، ذہنی دباؤ اور خاندانی رجحانات بتائے جاتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کے متقاضی ہیں کہ محکمہ صحت، فیلڈ ہاسپٹلز، اور آرمی میڈیکل کور جیسے ادارے ذیابیطس کی آگاہی، بروقت تشخیص اور علاج کی فراہمی کے لیے اپنے اشتراک کو مزید مضبوط بنائیں، تاکہ بڑھتی ہوئی اس بیماری کے بوجھ کو کم کیا جا سکے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس صرف ایک بیماری نہیں، یہ طرزِ زندگی میں نظم و ضبط کا امتحان بھی ہے۔ جن معاشروں نے اس شعور کو اپنایا، وہاں صحت مند زندگی ممکن ہوئی۔”
دنیا بھر میں 14 نومبر کو منایا جانے والا عالمی یومِ ذیابیطس ہمیں ہر سال یہ یاد دہانی کرواتا ہے کہ شوگر محض ایک جسمانی عارضہ نہیں، بلکہ ایک اجتماعی ذمہ داری بھی ہے۔ ہمارے ملک، خصوصاً آزاد جموں و کشمیر میں اگر صحت کے نظام پر نگاہ ڈالی جائے تو ایک منظم اور مربوط سلسلہ سامنے آتا ہے، جو آرمی میڈیکل کور اور محکمہ? صحت کے اشتراک سے فعال ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ آزاد کشمیر میں صحت کی سب سے مضبوط زنجیر آرمی میڈیکل کور کے زیرِ انتظام اسپتالوں، کمبائنڈ ملٹری اسپتالوں (CMHs)، فیلڈ ہاسپٹلز، ڈی ایچ کیو اور ٹی ایچ کیو اداروں کی صورت میں موجود ہے۔ ان اداروں نے جہاں ریاست میں بیماریوں کے خلاف ایک مضبوط دفاعی لائن کھڑی کی ہے، وہیں ازاد حکومت اور محکمہ صحت کی نیک نامی میں بھی اضافہ کیا ہے۔
دارالحکومت مظفرآباد کا کمبائنڈ ملٹری اسپتال (CMH) اس لحاظ سے سب سے نمایاں ہے کہ روزانہ ساڑھے تین سے چار ہزار افراد یہاں او پی ڈی سے مستفید ہوتے ہیں۔ انتظامیہ نے داخلی گیٹ سے لے کر مختلف او پی ڈیز تک رہنمائی کا ایسا نظام قائم کیا ہے کہ آنے والا ہر مریض اپنی ضرورت کے مطابق متعلقہ ڈاکٹر تک پہنچ سکے۔ یہ نظم و ضبط اور خدمت کا وہ امتزاج ہے جو کسی بھی مہذب معاشرے میں صحت کے معیار کی پہچان بنتا ہے۔
ذیابیطس کلینک کا قیام اس اسپتال کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ پچھلے تین برسوں سے سینیئر ڈاکٹر عمر عبداللہ اور آرمی کے دیگر ماہر ڈاکٹرز کی زیرِ نگرانی یہ کلینک شوگر کے مریضوں کے لیے جدید علاج، رہنمائی اور آگاہی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہاں نہ صرف مریضوں کو ادویات دی جاتی ہیں بلکہ انہیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ شوگر پر قابو دوائیوں سے نہیں، بلکہ عادتوں کی درستگی سے ممکن ہے — متوازن غذا، ورزش، وقت پر نیند اور ذہنی سکون اس علاج کے بنیادی ستون ہیں۔
یہ پہلو قابلِ غور ہے کہ آرمی میڈیکل کور نے صحتِ عامہ کے اس نظام کو صرف ادارہ جاتی حد تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے عوامی اعتماد کا حصہ بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج آزاد کشمیر کے لوگ بیماری کے وقت سب سے پہلے انہی اداروں کا رخ کرتے ہیں۔
عالمی یومِ ذیابیطس 14نومبر کے موقع پر یہ بات بڑی وضاحت سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر ہم صحت کے شعبے کو سی ایم ایچ مظفرآباد جیسے اداروں کے نظم و نسق کے مطابق منظم کر لیں، تو ذیابیطس جیسی بیماری نہ صرف قابو میں آ سکتی ہے بلکہ عام شہری کو بہتر زندگی گزارنے کا حقیقی موقع بھی مل سکتا ہے۔یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ذیابیطس کے خلاف جنگ محض ڈاکٹرز یا اسپتالوں کی نہیں، یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم اپنے طرزِ زندگی میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں لے آئیں، تو یہ“میٹھی بیماری”بھی اپنی تلخی کھو سکتی ہے۔
اب تک عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ آزاد کشمیر میں مختلف امراض، خصوصاً ذیابیطس جیسے مہلک مرض کے حوالے سے عالمی دنوں پر سرگرمیاں محض پینا فلیکس آویزاں کرنے، فوٹو سیشن منعقد کرنے اور چند سرکاری بیانات تک محدود رہتی ہیں۔ عموماً چند اہلکار یا محکمہ صحت کے ملازمین رسمی انداز میں شرکت کرتے ہیں اور دن گزرنے کے ساتھ ہی یہ مہم بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اس طرزِ عمل سے نہ عوام میں حقیقی آگاہی پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی بیماری کے تدارک کے لیے کوئی عملی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
یہاں آزاد حکومتِ جموں و کشمیرکی توجہ کے لیے ایسی جامع تجاویز پیش کی جا رہی ہیں جو اس بیماری کے سدِباب، کنٹرول اور عوامی سطح پر شعور اجاگر کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔مثلا
1. ریاستی سطح پر ذیابیطس کنٹرول پروگرام کا قیام اس طرز سے کیاجائے کہ گراؤنڈ پر کیا ہو رہا ہے؟اورفائیلوں میں کیا ہوسکتاہے؟ادراک کرنا،جائزہ لینا معمہ نہ ہو۔
آزاد کشمیر میں محکمہ صحت کے تحت ایک“ذیابیطس کنٹرول و آگاہی پروگرام”قائم کیا جائے جو مستقل بنیادوں پر اعداد و شمار جمع کرے، آگاہی مہمات چلائے اور علاج کی دستیابی یقینی بنائے۔ اس پروگرام میں آرمی میڈیکل کور، یونیورسٹیوں اور نجی ہیلتھ سیکٹر کو بھی شامل کیا جائے۔
2. ضلع و تحصیل سطح پر ذیابیطس اسکریننگ سینٹرز
ہر ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر (DHQ) اور تحصیل ہیڈکوارٹر (THQ) اسپتال میں مستقل اسکریننگ سینٹرز قائم کیے جائیں جہاں مفت شوگر ٹیسٹ، بلڈ پریشر چیک، وزن اور بی ایم آئی کا ریکارڈ رکھا جائے۔
دیہی علاقوں کے بنیادی مراکز صحت (BHU) میں موبائل ٹیسٹنگ یونٹس تعینات کیے جائیں۔ہر سال کم از کم دو مرتبہ ریاست گیر اسکریننگ مہم چلائی جائے۔
3. غذائی اصلاحات اور عوامی آگاہی مہمات
اسکولوں، کالجوں اور دفاتر میں ذیابیطس آگاہی ہفتے منائے جائیں۔میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز کے ذریعے“میٹھی نہیں، صحت مند زندگی چاہئیے”جیسے پیغامات عام کیے جائیں۔بازاروں اور ہوٹلوں میں کم شوگر فوڈ کارنرز کی ترغیب دی جائے۔غذائی ماہرین کی خدمات حاصل کر کے متوازن خوراک سے متعلق مقامی زبان میں گائیڈ بک شائع کی جائے۔
4. جسمانی سرگرمیوں کے فروغ کے اقدامات پر فوکس کرتے ہوئے سرکاری سطح پر“ہیلتھی کشمیر مہم”کے تحت واک، سائیکلنگ، اسپورٹس ایونٹس اور پبلک فٹنس ڈرائیوز کا باقاعدہ انعقاد کیا جائے۔اسکولوں اور دفاتر میں روزانہ کم از کم 15 منٹ کی لازمی فزیکل ایکٹیویٹی متعارف کرائی جائے۔
5.سرکاری اسپتالوں میں انسولین اور بنیادی شوگر ادویات سبسڈی یا فری اسکیم کے تحت فراہم کی جائیں۔سی ایم ایچ مظفرآباد کی طرز پر“ذیابیطس کلینک”ہر ضلع میں قائم کیا جائے تاکہ معیاری علاج قریب ترین سطح پر دستیاب ہو۔
6. ڈیٹا اکٹھا کرنے اور تجزیے کا نظام کرتے ہوئے محکمہ صحت ایک ڈیجیٹل رجسٹری (State Diabetes Registry) قائم کرے جس میں تمام سرکاری و نجی اسپتالوں کا ڈیٹا شامل ہو۔سال میں دو بار اس رجسٹری کا تجزیہ کر کے نتائج عوام کے سامنے پیش کیے جائیں تاکہ پالیسی میں بہتری لائی جا سکے۔
7. پالیسی وضع کرتے ہوئے ریاستی اسمبلی میں ایک“ صحت مند طرزِ زندگی بل”پیش کیا جائے، جس کے تحت اسکولوں میں غیر صحت مند خوراک (جَنک فوڈ) کی فروخت پر پابندی ہو۔فاسٹ فوڈ کمپنیوں کے لیے شوگر لیول کی حد مقرر کی جائے۔اگر ان تجاویز کو مد نظر رکھ کر اگے بڑھا جائے تو اس کے ممکنہ اثرات و نتائج اس طرح سے ہو سکتے ہیں۔ریاست میں ذیابیطس کی شرح اگلے 5 سے 10 سال میں 30٪ تک کمی آ سکتی ہے۔
قبل از ذیابیطس کے مریضوں میں بروقت آگاہی سے مرض کے پھیلاؤ میں واضح کمی ممکن ہے۔عوام میں صحت مند طرزِ زندگی کا شعور بڑھنے سے بلڈ پریشر، موٹاپے اور دل کے امراض میں بھی کمی آئے گی۔
ریاستی محکمہ صحت کو ایک منظم اور ڈیٹا پر مبنی پالیسی سازی کا موقع ملے گا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتِ آزاد کشمیر ایسے مواقع کو عملی صحت مہمات میں تبدیل کرے۔مثلاً فری شوگر ٹیسٹنگ کیمپ، آگاہی واکس، غذائی مشاورت سیشن، اسکول و کالج لیول آگاہی لیکچرز، اور میڈیا مہمات کا باقاعدہ انعقاد کا سال میں کم از کم دو سے تین بار ان سرگرمیوں کے اثرات کا باقاعدہ جائزہ لیا جائے تاکہ یہ طے ہو سکے کہ عوامی سطح پر کتنی تبدیلی آئی ہے۔ اس طرح نہ صرف عوامی اعتماد بحال ہوگا بلکہ محکمہ صحت کی کارکردگی کو بھی حقیقی بنیادوں پر پرکھا جا سکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



