
قارئین کرام! مایوسی گناہ ہے۔ ویسے بھی ہم نا امیدی میں امید لیے بیٹھے تھے۔ کرکٹ کی طرح سیاسی کھلاڑی کے آؤٹ ہونے اور نیا کھلاڑی میدان میں اتارنے کا منظر دیکھ رہے تھے۔ امید اس حوالے سے کہ چوتھا ٹیم کیپٹن مقرر ہونے میں تاخیر کے بعد مناسب انتخاب ہو گیا۔ سابق وزیراعظم نے No Work No Mistake کا فارمولا اپنا کر حکومت پر براجمان رہے۔ جب سب کچھ ٹھپ کر دیا جائے تو بظاہر غلطی کم ہوگی لیکن یہی سب سے بڑی غلطی تھی ملک کو جو نقصان پہنچا وہ اپنی جگہ لیکن اس عرصہ میں نورا کشتیاں خوب دیکھنے کو ملیں۔ لیکن اس بحث کو سمیٹنے کے لیے انوار الحق صاحب کا یہ جملہ کافی ہے کہ انتظامی خرابی کا ذمہ دار فرد واحد نہیں ہو سکتا۔ یقینا پوری ٹیم اس کی ذمہ دار ہے۔ ہمارے مقدر دیکھیں ٹیم پھر بھی سر آنکھوں پر قابل قبول صرف کیپٹن نیا مقرر ہوا ہے۔ البتہ نئے وزیراعظم کا انتخاب جواں سال، باہمت، اچھی شرط کے حامل اچھی تربیت اور اچھی تاریخ کی بنیاد پر ان سے زیادہ امیدیں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے تاہم راٹھور صاحب دن رات محنت کر کے اچھا ریکارڈ قائم کریں گے۔ وہ ہم میں سے ہیں ہم جیسے ہیں بڑے سرمایہ دار نہیں عام آدمی کے مسائل سے آگاہ ہیں۔ اگر ٹیم نے تعاون کیا تو آزاد کشمیر کی سیاسی تاریخ نیک نامی کی طرف بڑھے گی۔ سب سے اہم بات ہے کہ جناب وزیراعظم عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی اہم ذمہ داری عمدہ طریقے سے نبھا کر قوم کو بڑی مشکل سے نکال چکے ہیں۔ اور مزید یہ کہ ان کے اس عمل میں ان کے ساتھی جناب دیوان علی چغتائی اب بھی ان کی صف میں کھڑے ہیں۔ ہر دو نمائندگان سے طے شدہ مسائل کو عمدہ طریقے سے حل کرنے اور آئندہ اس کی نوبت نہ آنے دینے کے لیے ہم پر امید ہیں۔
قارئین کرام! ایکشن کمیٹی کے ساتھ تسلیم شدہ مطالبات پر عمل درآمد کا کام جاری ہے ما سوائے لیگل کمیٹی کے سپورٹ جو امور ہیں باقی معاملات پر فوری کاروائی ہی ہونی ہے۔ اور یقینا یہ باتیں جناب وزیراعظم کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ تجویز ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ طے شدہ امور کے حل کرنے میں تھوڑے وقت میں زیادہ کام کرنا ہوگا۔ راٹھور صاحب اس بات کو مدنظر رکھیں کہ سیاسی تاریخ میں 53 میں سے غالبا 48 ممبران نے جس شخص کے سپرد وزارت عظمی کی تھی انہوں نے ہی 36 کی بھاری اکثریت سے انہیں چلتا کیا۔ اس سے سبق سیکھنا ہوگا کہ کم و بیش تین سال کے عرصہ میں ان ذمہ داران ممبران اسمبلی کے اعتماد کو برقرار نہ رکھا جا سکا۔ اب اس ڈراپ سین کے بعد یہ ماننا ہوگا کہ عوام کے ساتھ تین سال کے عرصہ میں کیا سلوک ہوا۔ جس کا رد عمل عوامی ایکشن کمیٹی کا تاریخی نوعیت کا سامنے آیا۔
قارئین محترم! ابھی تک ہماری سیاست کی یہ سمجھ نہیں آرہی کہ آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں وزیراعظم بنانے پر متحد تھیں۔ اب سابق وزیراعظم کو ہٹانے اور نیا لانے پر متحد اور ایک پلیٹ فارم پر ہیں۔ اگر اپنے عملی تعاون موجودہ وزیراعظم کو فراہم کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ٹھہراؤ آ سکے۔ اور لوگ سکھ کا سانس لیں دیگر سیاسی جماعتوں کے عملی تعاون کی حکومت کو اشد ضرورت ہے بالخصوص تمام حکومتی محکمہ جات سے جمود ختم کرنے کے علاوہ بڑے ایشوز پر متفقہ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ جن میں مہاجرین کی
نشستوں کا معاملہ جس پر اس عرصہ میں تمام باریکیاں میڈیا میں زیر بحث لائی جا چکی ہیں۔ جس کا حاصل یہ محسوس ہوتا ہے کہ نشستوں کو مکمل طور پر ختم نہ کیا جائے۔ کم کیا جا سکتا ہے۔ لیگل کمیٹی بہتر حل بتائے گی تجویز کے طور پر تحریر ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ مہاجرین کے ممبران کا اسمبلی میں موجود ہونا اتنا مسئلہ نہیں اصل مسئلہ ان حلقوں کو فنڈز برابر دینا ہے۔ جو کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ ممبران منتخب ہوں وزیر بھی بنے اپنی ذاتی مراعات حاصل کریں۔ حلقے کے نام
پر کروڑوں کے فنڈز مناسب نہیں بہرحال اصل فیصلہ لیگل کمیٹی کو کرنا پڑے گا۔ اس معاملے میں بڑے بھائی کی حیثیت سے حکومت پاکستان ضامن ہے۔ پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح دوسرا بڑا مسئلہ مراعات کا ہے۔ وہ بھی اس لحاظ سے ممکن نہیں کہ جو سیاسی قائدین بغیر تنخواہ کے سیاسی خدمت کی راہ اختیار کرتے ہیں وہ اپنا وقت اور سرمایہ سب کچھ قربان کرتے ہیں ان کی Private Life بھی متاثر ہوتی ہے۔ وہ اگر عوام کی خاطر مراعات یافتہ طبقہ (جن میں خود بھی شامل ہیں) کی سہولتوں کو ختم یا کم کر دیں یہ ان کے لیے اعزاز اور اکرام کا سبب بنے گا۔ باقی معاملات حکومتی سطح پر اب تیزی سے یکسو ہونے کی امید لگ گئی ہے۔ Short Term میں فوری نوعیت کے معاملات پر توجہ کی تجویز ہے کہ:
1۔ اعلی ذمہ دار عہدوں پر (جن میں الیکشن کمیشن جیسے شامل ہیں) فوری تعیناتی کی کاروائی کی جائے۔
2۔ تمام محکمہ جات پر لگائی گئی پابندیاں فوری ختم کی جائیں تاکہ محکمے اپنا کام کر سکیں۔
3۔ تمام ملازمین کے زیر التوا معاملات کو فوری طور پر مشاورت اور سماعت کے بعد یکسو کر دیا جائے۔
4۔ ملازمین بھی اس ملک کے شہری ہیں۔ ان کی تمام باتوں کو رد کر دینا انوار صاحب کا طریقہ نہ اپنایا جائے۔ تمام مراعات پاکستان کے ملازمین کے ہم پلہ حسب سابق دی جائیں جن معاملات میں انوار صاحب نے ڈنڈی ماری ہے ان کو متعلقین سے سماعت کر کے حل کیا جائے۔
آخر میں ایک اہم تجویز یہ ہے کہ اسمبلی ممبران کی بلا امتیاز جماعت انوار الحق صاحب پر بھر پور اعتماد کے بعد بد اعتمادی کی وجوہات کا سیاسی نمائندوں کا یقینا پتہ ہوگا۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ اعلی سطحی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جائے جو اچھے اور خلاف ضابطہ کاموں کی چھان بین کر کے حکومت کو جلد از جلد رپورٹ کرے۔ اخباری خبروں کے مطابق سابق وزیراعظم کے کچھ امور پر اعتراضات ہیں۔ جن میں خلاف ضابطہ تقرریاں، فنڈز کی نامناسب تقسیم جیسے معاملات کی اصل حقیقت عوام کے سامنے لائی جائے یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ اگر تمام تر کارکردگی درست رہی تو پھر عدم اعتماد کیوں؟ یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ سابق وزیراعظم کے دو ٹوک بیان کے مطابق فی حلقہ تین سال کے دوران اربوں روپے دیے گئے ہیں۔ اس کی چھان بین اشد ضروری ہے کیونکہ یہ معمولی خبر نہیں یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اگر عربوں روپے فی حلقہ دیے گئے ہیں۔ کیا یہ مہاجر نمائندوں کو دیے گئے ہیں۔ اگر یہ بیان محض گپ شپ تھا تو اس غیر ذمہ داری کا ذمہ دار کون یہ پھیرا الیکشن کے قریب کا ہے بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭




