کالمز

قوم کے محسن، ایک عظیم سپاہی سیکنڈ بٹالین اے کے رجمنٹ کے سپوت کا تذکرہ

قوموں کی باوقار زندگیوں کا واسطہ اُن ہیروں کی مرہونِ منت ہوتی ہے جو اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بناتے ہیں۔ یہ وہ جانباز ہوتے ہیں جو اپنے خون سے آزادی کی آبیاری کرتے ہیں، اُن کے حوصلے دشمن کے گھناؤنے عزائم کے آگے آہنی دیوار ثابت ہوتے ہیں، اور اُن کی قربانیاں قوموں کی تاریخ میں سنہرے حروف میں رقم ہوتی ہیں۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کے ہمیں ایسے ہی لاتعداد سپوت ملتے ہیں جنہوں نے مادرِ وطن کی حفاظت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ انہی جانبازوں میں ایک درخشندہ نام نائیک سید محمد حسین شاہ شہید کا ہے، جن کی داستانِ شجاعت آج بھی تاریخ کا روشن باب ہے۔نائیک سید محمد حسین شاہ شہید، پیدائش، تعلیم اور ابتدائی زندگی: نائیک سید محمد حسین شاہ 1942ء میں بانڈی سیداں کے باوقار زمیندار گھرانے میں سید سید احمد شاہ صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے ہی گاؤں کے گورنمنٹ سکول سے حاصل کی وہی سکول جو آج اپ گریڈ ہو کر ہائی سکول بنا اور شہید کے نام سے منسوب ہونا اُن کی خدمات کا عملی اعتراف ہے۔شہید بچپن ہی سے محنت، سادگی اور جرات کا پیکر تھے۔ کشورِ محبوب پاکستان سے ان کی والہانہ محبت اور فوجی زندگی کا شوق انہیں عملی میدان کی طرف لے آیا۔
سید محمد حسین شاہ نے جوانی میں پاک آرمی میں شمولیت اختیار کی، مگر دل میں کچھ اور ہی ارمان تھے۔ ان کا حقیقی شوق میدانِ جہاد میں اتر کر وطن کی حفاظت کرنا تھا۔ یہی جذبہ انہیں کچھ عرصے بعد اپنی درخواست پر آزاد کشمیر رجمنٹ کی سیکنڈ بٹالین (Infantry) میں لے آیا۔یہ تبدیلی ان کے عسکری کیریئر کا ایک نیا باب ثابت ہوئی۔ یہاں انہیں وہ عملی کردار ملا جس کیلئے ان کا دل دھڑکتا تھا—دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہونا۔1965 اور 1971 کی جنگوں کے ناقابلِ فراموش کارنامے نائیک سید محمد حسین شاہ نے 1965 کی پاک بھارت جنگ میں شاندار خدمات انجام دیں، 1971 کی جنگ میں مادرِ وطن کے دفاع کیلئے صفِ اوّل میں شریک رہے، کئی خفیہ مشنز کا حصہ بنے جن کی تفصیلات آج بھی عسکری ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔ان کی بہادری، غیر معمولی فہم و فراست اور وطن کیلئے بے مثال محبت نے انہیں اپنے ساتھیوں میں ممتاز مقام دیا۔ 1971ء کی جنگ کے دوران چھمب جوڑیاں محاذ (بھمبر سیکٹر) پر لڑتے ہوئے اس بہادر سپوت نے اپنے خون سے وطن کی مٹی کا قرض ادا کیا۔ یہ وہ محاذ تھا جہاں پاک فوج نے دشمن کو فیصلہ کن شکست سے دوچار کیا، اور اس فتح میں شہید جیسے جانبازوں کا کردار مرکزی تھا۔
شہادت کے فوراً بعدکمانڈر انچیف،ایڈجوٹینٹ جنرل، رجمنٹل سنٹر کمانڈرنے اہلخانہ کو خطوط ارسال کیے جن میں شہید کی جرات، شجاعت اور خدمات کو بھرپور خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ پاک فوج کی روایت ہے کہ ہر شہید کے خاندان کو یہ عزت نامے بطور احترام بھیجے جاتے ہیں۔
شہید کے خاندان کی عسکری خدمات ابھی دوسروں کے لیے قابل تقلید ہیں۔نائیک سید محمد حسین شاہ شہید کا خاندان عسکری خدمات کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہے۔اس خاندان کے درجنوں افراد پاک فوج میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ شہید وطن کا پوتا بھی اپنے دادا جیسے جذبے تربیت اور مہارت کے ساتھ پاک فوج کی ایک رجمنٹ کا حصہ ہے۔دیگر لواحقین بھی پاک فوج کے ساتھ مختلف شعبوں میں قابلِ فخر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔یہ تسلسل اس گھرانے کی مادرِ وطن سے غیر متزلزل محبت اور وابستگی کا عملی ثبوت ہے۔
ریاست کی جانب سے شہیدوں کی قربانیوں کا سنجیدہ انداز میں اعترافِ خدمت فقدان رہا ہے۔چنانچہ شہید کے فرزند ارجمند نے 35 سال کے بعد ایک عظیم مقصد لے کر اپنے والد شہید ہی نہیں بلکہ مادر وطن کے ہر شہید کے لیے ایک کام کا بیڑا اٹھایا۔اس طرح آزاد حکومتِ ریاستِ جموں و کشمیر کوشہید سید محمد حسین شاہ کی لازوال قربانی کو ہمیشہ کیلئے امر کرنے کیلئے گورنمنٹ بوائز ہائی سکول بانڈی سیداں (چکوٹھی سیکٹر) کو اُن کے نام سے منسوب کرنے پر نہ صرف اقدام کرنا پڑا۔ بلکہ بیسیوں شہیدوں سے سرکاری تعلیمی ادارے منسومیت کی راہ بھی اموار کی گئی یہ اعزاز اس بات کا ثبوت ہے کہ قوم اپنے محسنوں کو کبھی فراموش نہیں کرتی۔ شہید کی قربانی، آنے والی نسلوں کیلئے مشعلِ راہ ہے۔اسی حقیقت کے پیش نظر شہید کے گھرانے نے شہدائے وطن میڈیا سیل کے نام سے ایک پلیٹ فارم کی تشکیل کی اور مدتوں تک ازاد کشمیر کے شہدائے پاک افواج کی قربانیوں سے نئی نسل کو روشناس کروانے کے لیے سرکاری تعلیمی ادارے منسوب کرنے کی مہم چلائی گئی۔
نائیک سید محمد حسین شاہ کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ وطن کی حفاظت کیلئے جان قربان کرنا صرف فرض نہیں بلکہ عزت و سعادت ہے۔ ان کا نام آزاد کشمیر رجمنٹ کے درخشندہ سپوتوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔قوم کے یہ محسن ہمارے سر کا تاج ہیں۔جنہوں نیدشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملائے،اپنی جانیں قربان کیں،اور آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ، باوقار اور آزاد وطن عطا کیا۔اللہ شہید کے درجات بلند فرمائے اور ہم سب کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق دے۔

Related Articles

Back to top button