کالمز

انسانی حقوق کا عالمی دن اور خواتین کے حقوق۔

تحریر: ریحانہ خان

چیئرپرسن وویمن کمیشن آزاد جموں وکشمیر
انسانی حقوق کا عالمی دن دنیا بھر میں ہر سال 10 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد انسانیت کی بنیادی اقدار کو اجاگر کرنا، ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرنا اور معاشروں میں انصاف، مساوات اور آزادی جیسے اصولوں کو فروغ دینا ہے۔ انسانی حقوق محض قانونی دفعات یا عالمی معاہدے نہیں، بلکہ ہر انسان کی وہ فطری ضرورت ہیں جو اس کی عزت، آزادی اور تحفظ کو یقینی بناتی ہیں۔بطور چیئرپرسن ویمن کمیشن، میں بخوبی محسوس کرتی ہوں کہ جب انسانی حقوق کی بات کی جاتی ہے تو دنیا کے کئی خطوں میں آج بھی خواتین وہ طبقہ ہیں جنہیں سب سے زیادہ ناانصافی، تشدد، استحصال، اور بنیادی حقوق سے محرومی کا سامنا ہے۔ اس موقع پر ہم نہ صرف دنیا بھر کی مظلوم خواتین کو یاد کرتے ہیں بلکہ اس یقین کا اعادہ بھی کرتے ہیں کہ جب تک خواتین کو برابر کا درجہ، تحفظ اور مواقع نہیں ملتے، انسانی حقوق کا تصور نامکمل رہے گا۔
قارئین کرام خواتین کے حقوق انسانی حقوق کا بنیادی ستون،دنیا کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے، اور جب کسی ملک میں خواتین محفوظ، بااختیار اور تعلیم یافتہ ہوں تو وہ معاشرے ترقی کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ آج بھی خواتین کو ذاتی، سماجی اور معاشی سطح پر شدید چیلنجز کا سامنا ہے گھریلو تشدد،ہراسگی،کم عمری کی شادی،ملازمت کے مواقع میں امتیاز،انصاف تک محدود رسائی،یہ وہ مسائل ہیں جن سے نمٹنے کے لیے ریاستی اداروں، سماجی تنظیموں اور عوام کی مشترکہ کوشش ضروری ہے۔ ویمن کمیشن کا مقصد یہی ہے کہ خواتین کو قانونی، معاشرتی، تعلیمی اور معاشی محاذ پر مضبوط بنایا جائے۔
پاکستان اور آزاد کشمیر میں خواتین نے گزشتہ دہائیوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ تعلیم، صحت، قانون سازی اور روزگار کے مواقع میں بہتری آئی ہے۔ تاہم، ابھی بھی کئی شعبوں میں بہت کام باقی ہے دور دراز علاقوں میں تعلیم اور صحت کی سہولیات کی کمی، کاروکاری، غیرت کے نام پر قتل جیسے جاہلانہ رواج،جائیداد کے حق سے انکار،کام کی جگہوں پر ہراسگی،ریاستی سطح پر کیے گئے اقدامات قابلِ تعریف ہیں، مگر جب تک معاشرے کی سوچ تبدیل نہیں ہوتی، خواتین کے مکمل حقوق کا تحفظ ممکن نہیں۔ اس کے لیے فرد، خاندان، ادارے اور ریاست سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر خواتین کے حقوق کی بدترین پامالی دنیا میں اگر کسی خطے میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں تو وہ مقبوضہ جموں و کشمیر ہے جہاں بھارتی ریاستی جبر نے زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے۔اور اس ظلم کا سب سے زیادہ شکار کشمیری خواتین ہیں۔کشمیر کی بیٹیاں ظلم کے سائے میں مقبوضہ کشمیر میں خواتین صرف جسمانی اور ذہنی تشدد کا ہی شکار نہیں، بلکہ انہیں کئی دہائیوں سے ایک ریاستی پالیسی کے تحت دبایا جا رہا ہے۔ بھارتی فورسز کی یہ کارروائیاں عالمی انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزیاں ہیں۔بھارت نے متعدد کشمیری خواتین کو بے بنیاد مقدمات میں گرفتار کر کے پابندِ سلاسل کر رکھا ہے۔ ان میں وہ بہادر خواتین بھی شامل ہیں جو صرف آزادی? اظہار، احتجاج اور اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرنے کی پاداش میں قید ہیں۔آسیہ اندرابی دخترِ ملت، دخترانِ ملت کی سربراہ،نحیدہ نسرین سیاسی کارکن،فہمیدہ صوفی،رشیدہ بیگم دیگر متعدد خواتین جنہیں بغیر جرم جیلوں میں ڈالا گیا یہ خواتین مظلومیت کی نہیں، بلکہ ہمت، استقامت اور جدوجہد کی علامت ہیں۔ ان کے وجود نے بھارت کے جھوٹے بیانیے کو ہمیشہ بے نقاب کیا ہے۔ بھارتی ریاستی جبر عالمی اداروں کے لیے سوالیہ نشان بھارت کی جانب سے غیر قانونی گرفتاریاں،اجتماعی سزائیں،جبری گمشدگیاں،نام نہاد قوانین کے تحت طویل قید،تلاشی اور کارروائیوں کے دوران خواتین کی بے حرمتی،نقل و حرکت کی آزادی پر پابندی،یہ سب انسانی حقوق کی عالمی خلاف ورزیاں ہیں۔ افسوس کہ عالمی انسانی حقوق تنظیمیں، اقوام متحدہ اور بڑی طاقتیں اس ظلم پر محض بیانات تک محدود ہیں۔یہ خاموشی کشمیری خواتین کے دکھ میں اضافہ کا باعث ہے۔ خواتین کی طاقت، معاشروں کی بنیاد بطور چیئرپرسن ویمن کمیشن میری یہ بھرپور کوشش ہے کہ ہم اپنے خطے کی خواتین کو ہر ممکن سہولت، تحفظ اور حقوق دلائیں۔ مگر جب میں مقبوضہ کشمیر کی مظلوم خواتین کی حالت دیکھتی ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ انسانیت کا ضمیر ابھی زندہ نہیں ہوا۔عالمی برادری کو چاہیے کہ کشمیر کی خواتین کی حالتِ زار پر فوری نوٹس لے بھارت پر دباؤ ڈالے کہ سیاسی قیدی خواتین کو رہا کیا جائے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائے،کشمیری خواتین کو بنیادی حقوق، تحفظ اور آزادی فراہم کی جائے،ہماری بہنیں، بیٹیاں اور مائیں گزشتہ 75 سال سے ظلم سہہ رہی ہیں۔ یہ وقت خاموشی کا نہیں، بلکہ کھل کر آواز اٹھانے کا ہے۔ انسانیت، انصاف اور خواتین کے حقوق کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری انسانی حقوق کا عالمی دن صرف ایک تاریخ یا تقریبات تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا، خواتین کو بااختیار بنانا، اور معاشرے میں انصاف کا نظام قائم کرنا ہر انسان کی ذمہ داری ہے۔آئیں عہد کریں کہ اپنے معاشرے کی خواتین کو مکمل حقوق دیں گے، انصاف، احترام اور عزت کا ماحول قائم کریں گے، ظلم، تشدد اور ناانصافی کے،خلاف ہمیشہ کھڑے رہیں گے،مقبوضہ کشمیر کی مظلوم خواتین کے لیے آواز اٹھاتے رہیں گے بھارتی جبر کے خلاف کشمیر ی عوام ڈٹ کر کھڑے ہیں، عالمی برادری بھارت کی کشمیریوں کے خلاف متعصبانہ کاروائیوں کا نوٹس لے۔ میں اس وقت بھارتی جیلوں میں خواتین کی جرات کو سلام پیش کرتے ہیں جو اس وقت بھارتی جیلوں میں قیدوبند کی صعوبتیں براشت کررہی ہیں۔کشمیریوں کی قربانیاں کسی صورت رائیگاں نہیں جائیں گی اور شہداء کا لہو ضرور رنگ لائے گا۔ہندوتوا پالیسی نہ صرف بھارتی حکومت بلکہ بھارت کے انصاف کے اداروں میں بھی سرائیت کر چکی ہے، بھارت کے کسی ادارے سے انصاف کی توقع نہیں۔ بھارت آئے روز مقبوضہ کشمیر میں عالمی انسانی حقوق کی بدترین پامالیاں کر رہاہے،مسلم کش کے بعد اب کشمیریوں کی نسل کشی کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، بھارت کسی عالمی قانون و تقاضے کو خاطر میں نہیں لاتا دنیا کی بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار بھارت کا چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہو گیا ہے، 1947 سے آج تک کشمیری آزادی کے لیے مسلسل قربانیاں دے رہیں۔ کشمیریوں کے حوصلے بلند ہیں اور آزادی کی سحر تک یہ جدوجہد جاری و ساری رہے گی۔ اقوام متحدہ کی خاموشی قابل تشویش ہے۔ اقوام متحدہ بھارت کے یک طرفہ اقدامات کا فوری نوٹس لے اور بھارت کی سخت باز پر س ہونی چاہیے۔

Related Articles

Back to top button