کالمزمظفرآباد

روشنی کے ان مسافر — انسانیت کے نگہبان

تحریر: محمد اقبال میر

آزاد جموں و کشمیر میں دریائے نیلم اور جہلم کے سنگم پر واقع یہ سرزمین، جہاں کبھی محبت کے گیت گنگناتے دریا بہتے تھے، اب اکثر ایک اور منظر کی گواہ بنتی ہے — وہ منظر جب کوئی مایوس روح زندگی سے ہار مان کر ان لہروں کے سپرد خود کو کر دیتی ہے۔ خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات نے مظفرآباد کے ماحول کو جیسے کسی گہری خاموشی میں لپیٹ لیا ہے۔
انہی افسوسناک حالات کے پیش نظراسٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے دومیل اور بارہ دری کے مقامات پر ریسکیو ٹیمیں تعینات کر دی ہیں، تاکہ کوئی جان اگر زندگی سے منہ موڑنے لگے تو شاید کوئی ہاتھ اسے تھام لے اور حال ہی میں ایک ایسا لمحہ آیا جب انسانیت نے خود کو زندہ ثابت کیا۔سہیلی سرکار پل کے قریب لڑکی نے چھلانگ لگائی۔ لوگ جمع ہوگئے، آوازیں گونجنے لگیں، کچھ نے موبائل نکالے، سیٹیاں بجیں — مگر کسی نے دریا کی سمت قدم نہ بڑھایا۔ ایسے میں ایک عام مزدور نے وہ کام کر دکھایا جسے تاریخ یاد رکھے گی۔
وہ نوجوان رفیق حسین ولد سید نذیر حسین شاہ تھا،مہاجر کیمپ راڑہ کا رہائشی، تین بچوں کا باپ، جو روزی کے لیے بائیکیا چلا کر اپنے گھر کا چولہا جلاتا ہے۔ اس وقت وہ دریاؤں کے سنگم پر مچھلیاں پکڑ رہا تھا کہ شور بلند ہوا۔ اس نے دیکھا ایک سر لہروں کے درمیان ڈوبتا ابھرتا جا رہا تھا۔ لمحے بھر کی تاخیر کیے بغیر اس نے اپنی قمیض اتاری، ٹھنڈے پانی میں چھلانگ لگا دی اور بے حس و حرکت لڑکی کو کنارے پر لا کر زندگی کی سانس واپس دی۔
کیا یہ صرف ایک واقعہ ہے؟ نہیں یہ ایک قوم کے کردار کی تصویر ہے۔
یہ وہی مہاجرینِ جموں و کشمیر ہیں جنہوں نے پاکستان کے نام پر سب کچھ قربان کیا اپنے گھر، اپنی زمینیں، اپنے خواب۔ وہ لوگ جو ہجرت کے دُکھ کے ساتھ بھی امید کی شمع بجھنے نہیں دیتے۔ جن کے ہاتھوں میں محنت کے چھالے ہیں مگر دلوں میں ایمان کی روشنی۔
رفیق حسین نے جب لڑکی کی والدہ سے بیس ہزار روپے انعام کے طور پر لینے سے انکار کیا تو وہ صرف ایک انسان نہیں بلکہ ایک نظریے کی علامت بن گیا۔نظریہ اخلاص، ایثار اور انسانیت۔
آج آزاد کشمیر کی ترقی میں انہی مہاجرین کا پسینہ شامل ہے۔ وہ تعمیراتی مزدور بھی ہیں، محنت کش بھی، استاد بھی سپاہی بھی۔ ان کے بچے محدود وسائل میں تعلیم حاصل کر کے معاشرے کے باوقار شہری بن رہے ہیں۔ مگر افسوس حکومتی پالیسیوں نے ان کی آواز کو خاموش کر رکھا ہے۔
مہاجرین کا کوٹہ ختم ہو چکا ہے اسمبلی میں ان کا کوئی نمائندہ نہیں، بیوروکریسی میں کوئی دروازہ ان کے لیے نہیں کھلتا۔ ان کے کیمپ اب بھی مسائل کا گڑھ ہیں نہ معیاری رہائش، نہ صحت کی سہولت اور نہ ہی دیگر بنیادی سہولیات۔ گزارہ الاؤنس آج کے مہنگے دور میں انتہائی کم ہے۔
ایسے میں یہ لوگ پھر بھی شکایت نہیں کرتے بس زندگی کے طوفانوں میں چپ چاپ اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔کیا یہ وہ لوگ نہیں جن کے بزرگوں نے پاکستان کے قیام کے وقت اپنی جانیں قربان کیں؟کیا یہ وہی نہیں جنہوں نے مقبوضہ وادی سے نکل کر اس آزاد خطے کی بنیاد مضبوط کی؟
آج اگر حکومت ان کے دکھوں کو محسوس نہیں کرے گی تو پھر انسانیت کا حق ادا نہیں ہوگا۔
یہ وقت ہے کہ آزادکشمیر حکومت خوابِ غفلت سے بیدار ہو۔رفیق حسین جیسے نوجوانوں کو خصوصی تعریفی سند دی جائے۔ انہیں ریاستی ہیروز کے طور پر تسلیم کیا جائے، ان کے لیے روزگار کے دروازے کھولے جائیں۔
گزارہ الاؤنس میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے، رہائشی مسائل کا حل نکالا جائے، ان کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں
کیونکہ جن لوگوں نے اپنا ماضی قربان کر کے تاریخ رقم کی،انہیں صرف خراجِ تحسین نہیں انصاف اور عزت کی ضرورت ہے۔
رفیق حسین جیسے نوجوان اس قوم کے خاموش ستارے ہیں۔ وہ نہ میڈیا پر آتے ہیں، نہ تمغے مانگتے ہیں بس انسانیت کے لیے جیتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ابھی روشنی باقی ہے،ابھی ایمان زندہ ہے اور ابھی کشمیر کی مٹی میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے کردار سے انسانیت کا چہرہ روشن ہے۔

Related Articles

Back to top button