صحت مند جمہوریت میں میڈیا کی حیثیت!

آزادی صحافت کسی بھی جمہوری معاشرے کیلئے ریڑھ کی ہڈی اور ریاستی شفافیت کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔وہ معاشرے جہاں صحافی بلا خوف و خطر سچ لکھ اوردیکھاسکتے ہیں، وہاں حکومتیں عوامی اعتماد حاصل کرتی ہیں اور ریاستی ادارے جواب دہی کے اصول کو تسلیم کرتے ہیں۔جب صحافت کو دبایا جائے، قلم و کیمرے کو پابند کیا جائے اور صحافیوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی پر سزا دی جائے تو نہ صرف آزادیِ اظہار بلکہ جمہوریت کے وجود پر بھی سوالیہ نشان پیداہو جاتے ہیں۔حاکم وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحافیوں کو ایسا ماحول فراہم کرے جہاں صحافی سچ بولنے اور حقائق سامنے لانے سے خوفزدہ نہ ہوں۔ کیونکہ صحافی محض خبر رساں نہیں بلکہ قوم کے ضمیر کی آواز ہوتے ہیں، جو ریاست کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے اور اصلاح کا راستہ دکھاتے ہیں۔آج دنیا بھر میں آزادیِ صحافت کو خطرات لاحق ہیں،پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں یہ ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ حکومت صحافیوں کے تحفظ، فلاح اور آزادی کے لیے موثر اقدامات کرے۔حاکمِ وقت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک مضبوط، آزاد اور باوقار میڈیا دراصل ریاستی استحکام کا ضامن ہے، دشمن نہیں۔ حکومت تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرے اور اختلاف کو دشمنی کے بجائے اصلاح کا ذریعہ سمجھے، تو یہی طرزِ حکمرانی ملک کو حقیقی جمہوریت کے راستے پر گامزن کرسکتا ہے۔ آزادیِ صحافت کا تحفظ دراصل حاکمِ وقت کی سیاسی بالغ نظری، وسیع القلبی اور جمہوری سوچ کا امتحان ہوتاہے۔ ایک ایسا امتحان جو پاس کرنے والے رہنما تاریخ میں عزت کے ساتھ یاد رکھے جاتے ہیں
وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کا آزادیِ صحافت کے تحفظ کے عزم پر مبنی بیان یقیناً الفاظ کے اعتبار سے حوصلہ افزا اور جمہوری اقدار کی نمائندگی کرتا ہے۔اُنہوں نے بجا طور پر یہ حقیقت تسلیم کی کہ آزاد، باخبر اور ذمہ دار صحافت کسی بھی جمہوری معاشرے کی بنیاد ہے۔ ان کے پیغام میں صحافیوں کے کردار، قربانیوں کااعتراف اور اُن کے خلاف جرائم کے خاتمے کی ضرورت پر جس انداز میں روشنی ڈالی گئی، وہ کسی بھی ذمہ دار ریاستی سربراہ کے عزم کا مظہر ہے۔تاہم زمینی حقائق اور عملی اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو صورتِ حال اُن دعووں سے مطابقت نہیں رکھتی جو اس بیان میں پیش کیے گئے۔ یہی تضاد ہماری قومی صحافتی فضا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ حکومت صحافیوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے اور ایسے تمام اقدامات کیے جائیں گے جن سے صحافیوں کے خلاف جرائم کی موثر تفتیش اور انصاف کی فراہمی ممکن ہو۔ یہ جملہ یقین دہانی کی حیثیت رکھتا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ریاستی ادارے اس سلسلے میں عملی طور پر متحرک ہیں؟ رپورٹس کے مطابق سال 2025ء میں موجودہ حکومت کے دورِ اقتدار میں صحافیوں کے خلاف جرائم میں 60 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ اس میں دھمکیوں، اغوا، تشدد، جھوٹے مقدمات اور قتل کے واقعات شامل ہیں۔ بدقسمتی سے اکثر کیسز میں انصاف کی فراہمی تو دور کی بات، تفتیش بھی ابتدائی مرحلے سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ ایسے میں صرف بیانات سے یہ تاثر قائم نہیں کیا جا سکتا کہ آزادیِ صحافت محفوظ ہاتھوں میں ہے۔یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ بے لگام صحافت کسی بھی معاشرے کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے پر اسی کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ صحافت پر ناجائز پابندیاں، خوف و جبر کا ماحول، اور اختلافِ رائے کو دبانا جمہوریت کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ ایک باشعور، محب وطن اور قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنے والے صحافی کا بنیادی حق ہے کہ وہ قوم کے سامنے حقائق پیش کرے، سوال اٹھائے، اور احتساب کا عمل زندہ رکھے۔ حکومت یا ریاستی ادارے اس حق کو محدود کرتے ہیں تو اس عمل کو آزادیِ اظہارِ رائے پر حملہ تصور کیا جانا چاہیے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ صحافی حقائق تک عوام کی رسائی کو ممکن بناتے ہیں اور سچائی کے علمبردار ہیں۔بلاشبہ یہ بات درست ہے، پر جب انہی صحافیوں کو حقائق سامنے لانے کی پاداش میں مقدمات، دھمکیوں اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑے تو یہ حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ کسی بھی ملک کی نیک نامی اُس وقت بڑھتی ہے جب وہاں صحافت آزاد، محفوظ اور باوقار ہو۔ ایک ایسا ماحول جہاں صحافی بغیر خوف و خطر تحقیقاتی رپورٹنگ کرسکیں، یہی حقیقی جمہوریت کی علامت ہے۔پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں صحافت نے ہر دور میں مشکلات کے باوجود سچ کا علم بلند رکھا۔ آمریت ہو یا جمہوریت، صحافیوں نے حق گوئی کی قیمت جان و مال سے ادا کی۔ آج بھی ملک کے مختلف حصوں میں علاقائی، مقامی اور عزازی صحافی انتہائی کسمپرسی کے عالم میں اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔ اکثر ان کے پاس نہ وسائل ہیں نہ تحفظ، پر ان کے جذبے کمزور نہیں ہوتے۔ افسوس کہ ان کی قربانیوں کا اعتراف صرف یومِ صحافت کے موقع پر بیانات کی صورت میں ہوتا ہے، عملی سطح پر بہتری کے آثار نہ ہونے کے برابر ہیں۔یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ آج کے جدید دور میں جب سوشل میڈیا نے عوامی رائے کو وسعت دی ہے، حکومت کو اس موقع سے خوفزدہ ہونے کے بجائے اسے شفاف طرزِ حکمرانی کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ حکومت واقعی چاہتی ہے کہ اس کا موقف عوام تک پہنچے اور بداعتمادی ختم ہو تو سب سے موثر راستہ یہی ہے کہ وہ میڈیا کو اپنا مخالف نہیں بلکہ شراکت دار سمجھے۔ تنقید سے گھبرانے کے بجائے اصلاح کی گنجائش نکالنا ہی دانشمندانہ رویہ ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف کا بیان نیک نیتی کا مظہر ہوسکتا ہے،صرف نیت سے معاملات درست نہیں ہوتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایسے ٹھوس اقدامات کرے جن سے صحافیوں کو حقیقی تحفظ حاصل ہو۔ سب سے پہلے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ صحافیوں کے خلاف جرائم کی موثر تفتیش کے لیے خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دے، جس میں آزاد اور غیر جانب دار شخصیات شامل ہوں۔ اس کے علاوہ میڈیا ورکرز کی مالی مشکلات کے حل کے لیے ایک جامع پالیسی بنائی جائے تاکہ صحافیوں کو مالی دباؤ سے آزاد ہو کر اپنے فرائض انجام دینے کا موقع ملے۔دوسرا اہم قدم یہ ہونا چاہیے کہ حکومت خود اپنے اداروں اور شخصیات کو پابند کرے کہ وہ صحافیوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں سے باز رہیں۔ کوئی سرکاری اہلکار یا ادارہ کسی صحافی کو خبر شائع کرنے پر ہراساں کرتا ہے تو اس کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ یہ عمل صرف صحافیوں کی نہیں بلکہ ریاستی نظام کی ساکھ کی بحالی کے لیے بھی ضروری ہے۔آزاد صحافت دراصل شفاف اور مضبوط ریاست کی ضمانت ہے۔میڈیا کو بولنے، سوال کرنے، اور تحقیق کرنے کی اجازت نہ ہو تو کرپشن، نااہلی، بدانتظامی اور ناانصافی کے خلاف آواز دب جاتی ہے۔ ایک صحت مند جمہوریت میں میڈیا کی حیثیت عوامی ضمیر کی آواز کی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں حکومتیں صحافیوں کو دبانے کے بجائے اُن کے ساتھ مشاورت کو ترجیح دیتی ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کا بیان الفاظ کے لحاظ سے مثبت ضرور ہے، اسے حقیقت کا رنگ دینے کے لیے عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔ بیانات نہیں،پالیسیاں، قانون سازی اور موثر نفاذ وہ ذرائع ہیں جو آزادیِ صحافت کو حقیقی تحفظ فراہم کرسکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنائے، تاکہ دنیا کو یہ پیغام جائے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں سچ بولنا جرم نہیں بلکہ فخر کی بات ہے۔بے لگام نہیں، آزاد صحافت ہی جمہوریت کی سانسیں بحال رکھتی ہے۔ قلم کو زنجیر پہنادی جائے تو قوم کا شعور مفلوج ہوجاتا ہے۔ اسی لیے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافیوں کو آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر طرح کی کوریج کی آزادی دی جائے، اُن کی مالی اور جانی سلامتی کو یقینی بنایا جائے، اور ریاست یہ ثابت کرے کہ وہ ان صحافیوں کے ساتھ کھڑی ہے جو سچ لکھنے،دیکھانے اوربولنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہی رویہ پاکستان کو ایک مضبوط، شفاف اور باوقار ریاست بنانے کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔




