کالمز

مسلم کانفرنس کا93 واں یوم تاسیس

تحریر: راجہ محمد لطیف حسرت ایڈیشنل سیکرٹری جنرل مسلم کانفرنس

اگرچہ مسلم کانفرنس کا باقاعدہ قیام 1932 ء میں عمل لایا گیا لیکن مسلم کانفرنس کا نام اور نظریہ ایک صدی قبل لوگوں کے دلوں میں نہ صرف موجزن تھا بلکہ اس کا برملا اظہار بھی کیا جا رہا تھا۔1896 میں لاہور کے کشمیر ی مسلمان”آل انڈیا مسلم کانفرنس“ کے نام سے ایک تنظیم قائم کر چکے تھے جس کے تاسیسی اجلاس میں علامہ اقبال بھی شریک ہوئے۔یہ تنظیم کوئی 3,4 سال تک کام کرتی رہی پھر 1901ء میں اس کا نام تبدیل کر کے”مسلم کشمیری کانفرنس“ رکھ دیا گیا۔ میاں کریم بخش کو اس کا صدراور میاں شمس دین کو سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ امرتسر میں منعقد ہونے والے اس تاسیسی اجلاس میں نواب سر سلیم اللہ مہمان خصوصی تھے۔ 1908 میں مسلم کشمیر کانفرنس کے سالانہ اجلاس میں اس کا دائرہ کار بڑھا دیا گیا اور نام تبدیل کر کے ”آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس“ رکھ دیا گیا۔علامہ اقبال نئی تنظیم کے جنرل سیکرٹری اور منشی محمد دین فوق جوائنٹ سیکرٹری مقر ر کیے گئے۔
ریاستی مسلمانوں میں آزادی کی لہراور سیاسی شعور بیدار کرنے، انہیں ظلم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے اور اپنے سیاسی و سماجی حقوق کے حصول کے لئے تیار کرنے میں ”ریڈنگ روم پارٹی“،”انجمن اسلامیہ جموں“ اور ”ینگ مینز ایسوسی ایشن“ کا کردار بنیادی حیثیت کا حامل ہے تاہم آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کو ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے منظم کرنے کے حوالے سے 13 جولائی 1931 ء کے دن کوسنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ 13 جولائی 1931 ء کے 22 شہداء کے خون کا ہی اعجاز تھا کہ جس نے ریاستی مسلمانوں میں آزادی کی ایک نئی بیداری پیداکی جو آگے چل کر ایک تحریک کے شکل میں تبدیل ہو کر سامنے آئی۔ اس وقت تک مسلمانوں کی کوئی باقاعدہ تنظیم تھی اور نہ ہی پلیٹ فارم جس سے ہو کر وہ اپنی جدوجہد کو منظم انداز میں آگے بڑھاتے چنانچہ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے ریاست جموں و کشمیر کے بالغ نظر لوگ اکھٹے ہوئے اور اپنے مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کرنے اور سیاسی جماعت کی تکمیل کے لئے 15 اکتوبر1932 ء کا دن مقرر کیا۔ یہ اجلاس سر ی نگر میں پتھر مسجد میں منعقد ہوا جس میں ریاست بھر کے کونے کونے سے کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اجلاس کا باقاعدہ آغاز 15 اکتوبر کی شام کو ہوا جس میں غلام احمد عشائی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیاجس میں ”آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس“ کے قیام کی تحریک بھی شامل تھی اجلاس میں تحریک کی منظوری دیتے ہوئے
شیخ محمد عبداللہ کو مسلم کانفرنس کا پہلا صدر اور چودھری غلام عباس کو اس کا پہلا سیکرٹری جنرل چنا گیا۔ یہ اجلاس 15 اکتوبر سے 17 اکتوبر 1932ء تک جاری رہا جس میں ریاستی مسلمانوں کے مستقبل کے لائحہ عمل اور نئی جماعت کے قیام کے اغراض و مقاصد اور اُن کے حصول کے لئے حکمت عملی کی منظوری بھی دی گئی اجلاس میں جماعت کے نو منتخب جنرل سیکرٹری چودھری غلام عباس کی طرف سے مسلم کانفرنس کے دستور اساسی کا مسودہ بھی منظوری کے لئے پیش کیا گیا جسے اتفاق رائے سے منظور کیا گیا۔ اجلاس میں پیش کئے گئے دستور ی مسودہ میں مسلم کانفرنس کے لئے جو رہنما اصول مقرر/متعین کئے گئے اُن میں عہد کیا گیا کہ آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس ریاست جموں وکشمیر کے مسلمانوں کی شیرازہ بندی کر کے انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے ریاستی مسلمانوں کی اخلاقی، تعلیمی، معاشرتی، تمدنی و معاشی اصلاح و ترقی کے لئے کام کرے گی۔ مسلمانوں کے
مذہبی سیاسی و سماجی حقوق کے حصول و تحفظ کے لئے جدوجہد کی جائے گی اور اتحاد بین المسلمین کو قائم کرنے اور مذہبی رواداری کو فرو غ دینے کے لئے اقدامات کیے جائیں گے۔ نو منتخب صدر شیخ محمد عبداللہ نے تاسیسی اجلاس کے صدارتی خطبے میں اُس وقت ریاست جموں وکشمیر کے مسلمانوں کی سیاسی ابتری، اقتصادی بدحالی اور مسلمانوں کی زبوں حالی کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے حاضر ین پر زور دیا کہ وہ اپنے اندر نظم و ضبط قائم کریں دشمن کی چالوں سے ہو شیار رہیں تعلیم کے حصول کے لئے جدوجہد کریں مسلم کانفرنس کی تنظیم سازی پر توجہ دیں اور اپنی تمام تر توجہ آنے والے انتخابات پر مرکوز رکھیں تاکہ اسمبلی میں مسلمانوں کی مؤثر نمائندگی کے لئے جان دار نمائندے منتخب کیے جا سکیں انھوں نے مسلمان پریس کومؤثر بنانے اور سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کے داخل ہونے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ آخر میں انھوں نے اجلاس کی مندوبین کی طرف سے مسلم کانفرنس کا صدر منتخب کرنے پر شکر یہ ادا کرتے ہوئے یقین دلایا کہ وہ ان کے اعتماد پر پور اترنے کی بھر پور کوشش کریں گے۔

Related Articles

Back to top button