
اقتدار کا نشہ انسانی تاریخ کاایسابھیانک باب ہے جو ہر دور کے حکمرانوں کے طرزِ حکمرانی میں نمایاں نظر آتا ہے۔ طاقت کے نشے میں بدمست حکمران ہمیشہ اپنے مخالفین کو کچلنے، دبانے اور مٹانے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ یہ سلسلہ کسی ایک قوم یا خطے تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا کی تاریخ میں اس کی مثالیں عام ملتی ہیں۔ اقتدار پر براجمان حکمران یہ گوارا نہیں کرتے کہ کوئی ایسا مخالف ان کے سامنے کھڑا ہو جو عوامی مقبولیت یا اہلیت کے زور پر ان کا متبادل بن سکے۔ وہ مخالف چاہے کتنا ہی محب وطن، اہل، باصلاحیت اور عوامی حمایت یافتہ کیوں نہ ہو، اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کو اپنے اقتدارکیلئے خطرے کی علامت محسوس ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ہردورکے حکمران اپنے مخالفین کوہرقیمت پر مٹانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ اقتدار کے نشے میں مست حکمران اپنے مخالفین کو کمزور کرنے، ان کی ساکھ تباہ کرنے، انہیں جیلوں میں ڈالنے یا مکمل طور پر راستے سے ہٹانے کے لئے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ کوئی ریاستی اداروں کے ذریعے دباؤ ڈالتا ہے، کوئی جھوٹے مقدمات کے ذریعے کمزور کرتا ہے، تو کوئی مخالف آوازوں کو دبانے کے لئے ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال کرتا ہے۔ دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ ظلم کی حکمرانی زیادہ دیر نہیں چلتی۔ زمین پر اختیار رکھنے والا انسان چاہے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو، اس کا اقتدار ایک نہ ایک دن زوال پذیر ہو کر رہتا ہے۔ یہ قانونِ فطرت ہے جسے کوئی نہیں بدل سکتا۔اہل اقتدار بھول جاتے ہیں کہ صدا بادشاہی صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، باقی سب عارضی ہے۔ چاہے کوئی حکمران دنیا کے ہر کونے کو فتح کر لے، لاکھوں لوگوں کو غلام بنا لے، مخالفین کو کچل دے پران کے اقتدار کا سورج ہمیشہ نہیں چمکتا ایک نہ ایک دن غروب ہو کر رہتا ہے۔ کوئی دشمن یا مخالف اسے اقتدار سے نہ بھی ہٹا سکے تو موت اسے اقتدار سے الگ کر دیتی ہے۔ طاقت کے غرور میں مبتلا حکمران جب اقتدار کو دائمی سمجھنے لگتے ہیں تو یہی ان کے زوال کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔
تاریخ کے اوراق میں ایسے حکمرانوں کی لمبی فہرست درج ہے جنہوں نے اقتدار کو ہمیشہ کے لیے اپنا حق سمجھا۔ انہوں نے مخالف آوازوں کو خاموش کیا، عوام کے حقوق کو پامال کیا، عدل و انصاف کو روند ڈالا اور اپنے فیصلوں کو آخری قانون قرار دیاپروقت نے یہ ثابت کیا کہ جب ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ ظلم کا تاج ہمیشہ گرایا گیا ہے اور جابر حکمرانوں کے تخت ہمیشہ الٹائے گئے ہیں۔ شاعر کا یہ کہنا حقیقت سے قریب تر ہے کہ“ہم دیکھیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے، جب تخت گرائے جائیں گے۔”یہ الفاظ صرف شاعری نہیں بلکہ ایک تاریخی اور آفاقی سچائی ہیں۔
ظالم حکمران چاہے کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں، وہ وقت کے بہاؤ کو نہیں روک سکتے۔ وقت کی ریت ہمیشہ ظالموں کے ہاتھوں سے پھسل جاتی ہے۔ طاقت اور اقتدار کے نشے میں بدمست حکمران عوام کو کمزور سمجھتے ہیں، ان کے حقوق کو روندتے ہیں، ان پر بوجھ ڈالتے ہیں، وہ بھول جاتے ہیں کہ عوامی نفرت اور مظلوموں کی آہیں کسی نہ کسی دن تخت ہلا دیتی ہیں۔ ظلم کے ایوان ہمیشہ لرزتے ہیں اور بلا آخر منہدم ہو جاتے ہیں۔اقتدار کے نشے میں مست لوگ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ وہ ناقابل شکست ہیں پرحقیقت یہ ہے کہ اقتدارہمیشہ سے غیر مستقل چیز ہے۔ وقت کا پہیہ ایک سا نہیں رہتا۔ کل جو بادشاہ تھے آج وہ تاریخ کے حاشیوں میں ایک عبرت ناک مثال بن چکے ہیں۔ فرعون، نمرود، چنگیز خان، ہٹلر اور ایسے بے شمار حکمران طاقت کے بل بوتے پر دنیا کو جھکانے نکلے تھے۔ آج ان کا وجود عبرت کی داستان سے زیادہ کچھ نہیں۔ ان کے اقتدار کے قلعے ریت کے گھروندے ثابت ہوئے جنہیں وقت کی لہروں نے بہا کر مٹا دیا۔جو حکمران واقعی تاریخ میں امر ہوئے وہ وہی ہیں جنہوں نے عوام کے دلوں پر حکومت کی۔ جنہوں نے اقتدار کو طاقت کے اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ عوام کی خدمت کا ذریعہ بنایا۔جنہوں نے عدل و انصاف کو مقدم رکھا، عوام کے مسائل کو ترجیح دی، رعایا کو سکون اور خوشحالی فراہم کی۔یہی وہ حکمران ہیں جنہیں ان کے زوال کے بعد بھی عوام محبت اور احترام سے یاد کرتے ہیں۔ اقتدار کی اصل پائیداری تخت و تاج میں نہیں بلکہ عوام کے دلوں میں ہوتی ہے۔کوئی حکمران چاہتا ہے کہ اس کا نام تاریخ میں عزت سے لکھا جائے تو اسے ظلم کے بجائے عدل و انصاف کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ عوام پر رحم کھانے، وسائل ان پر خرچ کرنے اور ریاستی طاقت کو خدمت کے لیے استعمال کرنے سے ہی دلوں میں جگہ بنتی ہے۔ طاقت کے زور پر عوام کو دبانا ممکن تو ہے پر دیرپا نہیں۔ خوف اور ظلم پر قائم حکومتیں ریت کی دیواروں کی مانند ہوتی ہیں جو کسی ہلکی سی ہوا کے جھونکے سے بھی گر جاتی ہیں۔ظلم پر مبنی حکومت کبھی مستحکم نہیں رہتی۔ یہ ایک قدرتی اصول ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ عوامی نفرت، وقت کا بے رحم پہیہ اور قدرت کا فیصلہ ہمیشہ ظالم کے خلاف جاتا ہے۔ وہ حکمران جو عوام پر ظلم کر کے اقتدار کو دائمی سمجھ بیٹھتے ہیں، دراصل اپنی بنیادیں کھوکھلی کر رہے ہوتے ہیں۔ وقت آتا ہے تو وہی بنیادیں ان کے محلوں کو زمین بوس کر دیتی ہیں۔اقتدار کا اصل حسن تب ہے جب وہ انصاف، خدمت اور رحم کے ساتھ استعمال ہو۔ حکمران چاہتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد بھی زندہ رہیں، تو انہیں عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنانی ہوگی۔ عوام کو خوفزدہ کر کے تخت پر قبضہ تو ممکن ہے پر احترام سے حکومت صرف عدل و خدمت کے ذریعے ہی کی جا سکتی ہے۔ حکمرانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ عوام کے خادم ہیں، آقا نہیں۔ عوام کے دلوں میں زندہ رہنا ہی اصل بادشاہی ہے۔ دنیا کے تخت و تاج تو مٹ جاتے ہیں پر وہ محبت جو عوام کے دلوں میں پیدا کی جائے، ہمیشہ باقی رہتی ہے۔تاریخ کی گواہی ہے کہ ظلم اور جبر کا انجام ہمیشہ زوال ہی ہوا ہے۔ اقتدار کا نشہ وقتی ہے، طاقت عارضی ہے، اور حکومت ایک دن ختم ہو کر رہتی ہے۔ وہی حکمران کامیاب ہیں جو اپنے دورِ حکومت میں عدل و انصاف کو اپنا شعار بنائیں، عوام کی فلاح و بہبود کو مقدم رکھیں، اور نرمی، شفقت اور رحم دلی سے پیش آئیں۔ یہی وہ راستہ ہے جو کسی حکمران کو عوام کے دلوں میں زندہ رکھتا ہے اور یہی وہ حکمت ہے جو اقتدار کے زوال کو ایک نیک نامی میں بدل دیتی ہے۔