
یہ سوال کہ مئی 2025 کے 4 روزہ پاک بھارت جنگی جھڑپ میں ہندوستانی شکست اور عالمی بدلتے منظر نامے کو بھارت مانتا ہے۔ کہ پاکستان عالمی سطح پر ایک طاقتور ملک کے طور پر سیاسی اور سفارتی حیثیت میں ابھررہا ہے تو ہندوستان فوجی یا نفسیاتی طور پر آزاد جموں و کشمیر (AJK) پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے مگر اپنی عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے جنگی ماحول بنایے رکھا ہے۔مگر عملاََ اسکی پیش قدمی میں کء کلیدی رکاوٹوں میں شامل ہیں چین پاکستان اتحاد: چین اس خطے میں کسی بھی خطرے کو خاص طور پر جہاں سے CPEC گزرتا ہے جسے چین اپنے اسٹریٹجک مفادات کے لیے خطرہ سمجھتا ہے AJK میں کسی بھی ہندوستانی جارحیت سے چین میں شدید فوجی ردعمل پیدا ہو سکتا ہے دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں کوئی بھی روایتی جنگ جو کی ایک ملک کے وجودی مفادات کو خطرے میں ڈالتی ہے وہ ایٹمی تصادم میں بدل سکتی ہے جس سے مکمل پیمانے پر حملہ انتہائی خطرناک ہو جاتا ہے یہی وجہ دونوں مملک کو بڑی جنگ سے روکے ہوے ہے بھارت کوئی مہم جوی کرنے سیپہلے دس دفعہ اس روکاوٹ کے بارے میں سوچے گا اسکے باوجود اگر اسنے کوی غلطی کی تو پاکستان نے اپنی حیرت انگیز فوجی قوت کو بھارت اور عالمی طاقتوں کو ورطہ حیرت میں ڈالنے کا نتظام ک رکھنے کا اعلان کر دیاہے ازاد کشمیر کا آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کا پہاڑی جغرافیہ جنگی ماحول کے لیے ناسازگار ہے یہ سخت جغرافیای اور سخت موسمی حالات کسی بھی حملہ آور فوج کے لیے فوجی کارروائیوں کو انتہائی مشکل بنا دیتا ہے اسی لیے بھارت نے وسطی پاکستان اور جنوبی پاکستان مین پاکستان کے خلاف جنگی مشقوں کا اغاز کیا ہے جو پاکستان کو ان علاقوں میں جوابی مشقیں کرنے پر مجبور کرچکا ہے۔بھارت نے بھگرام ایر بیس کابل پر بھارتی ڈرون اور ایر فورس سکاڈرن کے جہاز طعینات کر دیے ہیں اسی ڈیل کے لیے افغانی وزیر خارجہ امیر خان متقی بھارت مین دورے پر گیے تھے اس بھارتی جنگی مہم جوی نے افغانستان کو چین اور پاکستان کے خلاف لا کھڑا کیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ افغانستان مین بھارتی جنگی جہاز بھی تباہ ہونگے اور افغانستان بھی خطرے کا شکار ہوجایے گا بلکہ افغانستان کی تقسیم مکن ہوجایے گی ہندوستان کے لیے مزاکرات سے مسلہ کشمیر حل کرنا آسان ہے: تقسیمِ کشمیر کی موجودہ حالت یا مذاکرات کے ذریعیکشمیر کی مزید تقسیم ایک عمومی تجویز یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول (LoC) کو مستقل بین الاقوامی سرحد میں تبدیل کیا جائے۔ اس سے ہندوستان اور پاکستان دونوں اپنے زیر انتظام علاقوں پر قبضہ برقرار رکھ سکیں گے یہ ہندوستان کے لیے زیادہ قابل قبول ہے کیونکہ اس میں تمام کشمیر کو چھوڑنا شامل نہیں ہے اسکا ہندستان نے عمران خان اور جنرل باجوہ کے ساتھ ملکر ایک اتفاق راے کیا تھا جو کشمیری عوام اور پاکستانی عوام نے ملکر نہ صرف ناکام بنایا بلکہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے شروع دن سے ہی اسے مسترد کیاتھا جسکی وجہ سے عمران خان کے چاہتے ہوے بھی باجوہ کو ایکسٹینشن نہیں ملی اور عمران خان کی پاکستان دشمنی میں اگے بڑھ جانے سے اسے بھی اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور گرفتار بھی۔ اس لیے یہ پرانی 1948 کی جنگی تقسیم پاکستان کشمیر اور چین کو قبول نہیں۔اسکا مطلب ہے جو بھارت کے قبضے میں کشمیر ہے جہاں ہندستان مخالف ازای کی تحریک گزشتہ 38 برس سے جاری ہے جہاں بھارت نے چھ لاکھ کشمیریوں کو پونچھ سے لیکر ڈوڈہ کشتواڑ راجوری اور کشمیر کے کونے کونے میں قتل کیے ہیں جہاں کشمیری کبھی بھی بھارت کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں تھے نہ ہیں۔ جہان بھارت کو اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے اپنی سب سے زیادہ فوج کشمیریوں پر مظالم ڈھانے کے لیے کشمیر مین لگا نی پڑی ہے اسی حصے کی تقسیم سے مسلہ حل ہوگا۔اب بھارت میں یہ سوچ سیکیولر سیاست دانوں میں پنپ رہی ہے کہ پورے ہندستان کو صرف کشمیر کے چھوٹے سے خطے کے لیے داو پر نہیں لگایا جاسکتا۔نہ کشمیر میں ناجایز قبضہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مخالف جاری رکھا جاسکتا ہے نہ کشمیر کے لیے بھارت کو ایٹمی جنگ میں جھونکا جاسکتا ہے۔وہ بھی جب یہ خطہ عالمی سطح پر متنازیہ ہے اور لوگ بھی ہندستان کے 78 سالہ قبضے کے باوجود رہنا نہیں چاہتے۔ لداخ, کرگل اور چناب وادی کے ضلع ڈوڈہ اج بھی ہندستان سے نفرت اور علاحدگی کے لیے سڑکوں پر تحریک چلا رہے ہیں۔اب ہندستان پاکستان کے ساتھ مزاکرات کرکے لداخ, وادی کشمیر اور دریاے چناب کے شمال اور مغرب میں واقع مسلم اکثریتی خطے کو پاکستان کے حوالے کرے جس اے امن بھی ہوگا بھارت بھی ٹوٹنے سے سے بچے گا۔ کشمیری مسلمان بھی گزشتہ 78 برس سے پاکستان کے ساتھ ان ہی مسلم اکثریتی علاقوں کو ملانے کی تحریک چلا رہے ہیں کیا بھارت خود مختار کشمیرپسند کرے یہ ہندوستان کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے ایک آزادو خود مختار کشمیر پر پاکستان اور چین دونوں کا زیادہ اثر قایم و دایم ہو سکتا ہے، اور اس کا وجود ہندوستان میں دیگر آزادی کی تحریکوں جیسے خالصتان اور شمال مشرقی ریاستوں کو تقویت دے سکتا ہے۔ یہ ایک Pandora’s Box کھولنے جیسا ہوگا جو بھارت کے ٹوٹنے کا سامان جلدی مہیاء کرے گا۔خود مختار کشمیر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے موافق و مطابق بھی نہیں ہے، جسے کوئی بھی ہندوستانی حکومت نہیں چاہتی لہذا،بھارت کو اگر مسلہ کشمیر حل کرنے کے اپشنز کا انتخاب کرنے پر مجبور ہو جائے تو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے کشمیر کی تقسیم ہندوستان کے لیے آزاد کشمیر کی اجازت دینے سے کہیں زیادہ قابل قبول اور اسان ہے۔