
کشمیر کی وادی اپنی قدرتی خوبصورتی، نیلگوں جھیلوں، سرسبز پہاڑوں اور خوشبودار ہواوں کے باعث دنیا بھر میں جنت نظیر کہلاتی ہے، مگر بدقسمتی سے یہ جنت گزشتہ 78 برسوں سے ظلم، جبر اور خونریزی کا منظر پیش کر رہی ہے۔27 اکتوبر 1947ء وہ دن ہے جب بھارت نے اپنی فوجیں سرینگر میں اتار کر ریاستِ جموں و کشمیر پر غیر قانونی قبضہ کیا۔یہ دن کشمیر کی تاریخ میں ایک سیاہ دن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا — وہ دن جب ایک آزاد قوم کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی سازش کی گئی۔تاریخی پس منظر پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ 14 اگست 1947ء کو پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر وجود میں آیا۔ برطانوی راج کے خاتمے کے بعد برصغیر کی ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کریں۔ریاست جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی خطہ تھا، جس کے عوام کی اکثریت پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہشمند تھی۔مگر ریاست کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے عوامی خواہشات کے برخلاف بھارت سے مدد طلب کی اور یوں بھارت نے فوجی طاقت کے زور پر 27 اکتوبر 1947ء کو کشمیر پر قبضہ کر لیا۔بھارت نے یہ دعویٰ کیا کہ مہاراجہ نے ”انسٹرومنٹ آف ایکسیشن” پر دستخط کیے ہیں، مگر یہ دستاویز آج تک کسی عالمی فورم پر ثابت نہیں ہو سکی۔اقوامِ متحدہ نے 1948ء میں مداخلت کرتے ہوئے کشمیر کے مستقبل کے فیصلے کے لیے استصوابِ رائے (ریفرنڈم) کی قرارداد منظور کی، جس پر بھارت نے آج تک عمل نہیں کیا۔کشمیر اور پاکستان ایک روحانی و تہذیبی رشتہ میں بندھا ہوا ہے کشمیر اور پاکستان کا رشتہ صرف جغرافیائی نہیں بلکہ روحانی، تہذیبی اور ایمانی ہے۔پاکستان کے دریا جہلم، نیلم، اور چناب کشمیر کی وادیوں سے نکلتے ہیں، یوں کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔بانی? پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے بھی فرمایا تھا:>“کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔”پاکستان اور کشمیر کا لازوال رشتہ صرف الفاظ تک محدود نہیں؛ کشمیر کے لوگ اپنے مذہب، زبان، ثقافت اور احساس کے اعتبار سے ہمیشہ پاکستان کے قریب تھے ہیں اور رہیں گیآج بھی وادی? کشمیر کے بچے“پاکستان زندہ باد”اور“کشمیر بنے گا پاکستان”کے نعرے لگاتے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی تقریباً تمام بڑی جنگوں کی بنیاد مسئلہ کشمیر رہا ہے۔1948ء کی جنگ بھارت کے قبضے کے فوراً بعد کشمیری مجاہدین اور قبائلی عوام نے مسلح جدوجہد شروع کی۔ پاکستان نے کشمیری عوام کی حمایت میں کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں موجودہ آزاد جموں و کشمیر وجود میں آیا۔ یہ جنگ اقوامِ متحدہ کی مداخلت پر ختم ہوئی، اور عالمی ادارے نے کشمیر کے مستقبل کے تعین کے لیے ریفرنڈم کی تجویز پیش کی۔1965ء کی جنگیہ جنگ بنیادی طور پر کشمیر کے مسئلے پر ہوئی۔پاکستان کے مجاہدین اور افواج نے بھارتی افواج کو سخت نقصان پہنچایا۔لاہور اور سیالکوٹ کے محاذ پر پاکستانی قوم نے جس عزم و جذبے کا مظاہرہ کیا، وہ تاریخ کا سنہری باب ہے۔اس جنگ نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستانی عوام اور فوج کشمیر کے دفاع کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔1971ء کی جنگ اگرچہ اس جنگ کا مرکز مشرقی پاکستان تھا، لیکن اس کے پس منظر میں بھی بھارتی جارحیت اور کشمیر کے مسئلے کی تلخی نمایاں تھی۔بھارت نے پاکستان کو کمزور کرنے اور کشمیر پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے یہ محاذ کھولا۔1999ء کی کارگل جنگ کارگل کی بلندیوں پر پاکستانی جانبازوں نے وہ قربانیاں دیں جنہیں تاریخ سنہری حروف میں یاد رکھے گی۔یہ جنگ بھی دراصل کشمیر کے متنازع علاقے سے جڑی تھی۔پاکستان نے دنیا کو یہ باور کرایا کہ مسئلہ کشمیر ایک علاقائی تنازع نہیں بلکہ عالمی امن سے جڑا ہوا سوال ہے گزشتہ دہائی میں پاکستان نے اپنے دفاعی نظام کو ایک بنیانِ مرصوص (ناقابلِ تسخیر قلعہ) کی حیثیت دی ہے۔چاہے وہ روایتی دفاع ہو، میزائل ٹیکنالوجی، یا ایٹمی صلاحیت — پاکستان اب جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے والا واحد ملک ہے۔پاکستان کی ایٹمی صلاحیت نہ صرف اس کی خودمختاری کی ضمانت ہے بلکہ کشمیر کے مظلوم عوام کے لیے بھی امید کی کرن ہے۔کشمیری عوام جانتے ہیں کہ پاکستان کی طاقت ان کی پشت پر ہے۔بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر مسلسل خلاف ورزیاں، شہری آبادیوں پر گولہ باری، اور انسانی حقوق کی پامالیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت کشمیر میں اپنی ناکامی چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔مگر“بنیانِ مرصوص”پاکستان کے دفاعی نظریے نے دشمن کے تمام عزائم ناکام بنا دیے ہیں آج جب بھارت نے 5 اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت (آرٹیکل 370) ختم کر کے اسے مکمل طور پر ضم کرنے کی کوشش کی، تو کشمیری عوام نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا۔دنیا نے دیکھا کہ کس طرح وادی میں کرفیو، گرفتاریوں اور پابندیوں کے باوجود کشمیری عوام نے پاکستان کے پرچم بلند کیے۔پاکستان نے سفارتی، سیاسی اور اخلاقی محاذ پر بھرپور جدوجہد کی۔اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور عالمی انسانی حقوق تنظیموں نے بھارت کے اقدامات کو غیر قانونی اور غیر انسانی قرار دیا۔حالیہ برسوں میں پاک فوج نے نہ صرف دفاعی لحاظ سے بلکہ سفارتی سطح پر بھی نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔پاکستان کی دفاعی پالیسی، جسے“بنیانِ مرصوص”کہا جاتا ہے، نے بھارت کو اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ کشمیر کے خلاف کسی بڑے جارحانہ اقدام کا سوچ بھی سکے۔پاکستان کی نئی دفاعی حکمتِ عملی کے بعد بھارت کی کئی سازشیں — خصوصاً لائن آف کنٹرول پر فالس فلیگ آپریشنز — ناکام ہو چکی ہیں۔آج آزاد جموں و کشمیر ایک ترقی یافتہ اور پُرامن خطہ بن چکا ہے، جہاں کے عوام پاکستان کے ساتھ اپنے رشتے پر فخر کرتے ہیں۔یہ علاقہ نہ صرف تحریکِ آزادی کشمیر کا مرکز ہے بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک مثال ہے کہ ظلم کے باوجود قومیں کیسے سر بلند رہ سکتی ہیں۔کشمیر کے عوام کا عزم اٹل ہے۔
انہوں نے اپنی تین نسلیں قربان کر دی ہیں مگر اپنے نصب العین سے پیچھے نہیں ہٹے۔
ان کے دلوں میں آج بھی پاکستان کا پرچم لہرا رہا ہے۔
ان کے بچوں کے لبوں پر نعرے گونجتے ہیں:
>“ہم کیا چاہتے؟ آزادی!”
“کشمیر بنے گا پاکستان!”
پاکستانی عوام بھی ہر محاذ پر کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
یہ رشتہ دین، ایمان اور خون کا ہے۔
یہ ایک ایسا وعدہ ہے جو قائداعظم، علامہ اقبال اور شہیدوں کے لہو سے جڑا ہوا ہے۔
27 اکتوبر کشمیر کے زخم کی یاد دلاتا ہے، مگر ساتھ ہی یہ دن امید، حوصلے اور مزاحمت کی علامت بھی ہے۔
یہ دن اس عزم کی تجدید کرتا ہے کہ پاکستان اور کشمیر ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں۔
دنیا کی کوئی طاقت اس رشتے کو توڑ نہیں سکتی۔
کشمیر کی آزادی صرف کشمیریوں کا خواب نہیں، بلکہ پاکستان کے نظریے کی تکمیل ہے۔
> کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، اور جب تک کشمیر آزاد نہیں ہوتا، پاکستان کا نقشہ اور قوم کا دل نامکمل ہے۔
کشمیر بنے گا پاکستان — ان شاء اللہ!




