کالمز

۲۷ اکتوبر: یومِ سیاہ۔۔۔ بھارتی جارحیت کے خلاف کشمیریوں کی لازوال جدوجہد

تحریر: سردار عبدالخالق وصی

دنیا بھر میں مقیم کشمیری ہر سال 27 اکتوبر کو یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ یہ وہ دن ہے جب 1947ء میں بھارتی افواج نے سری نگر پر قبضہ کر کے ریاست جموں و کشمیر کی آزادی اور خودمختاری کو پامال کیا۔ یہ دن محض ایک تاریخ نہیں بلکہ ایک مسلسل المیہ ہے جو آج بھی برصغیر کے سیاسی افق پر ایک ادھورا وعدہ بن کر موجود ہے۔ 27 اکتوبر 1947ء دراصل ایک قانونی اور اخلاقی بددیانتی کا دن تھا۔ تقسیمِ ہند کے اصولوں اور انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ کے برخلاف بھارت نے ایک غیر مستند“الحاق نامے”کے بہانے فوجیں داخل کیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ اس وقت ریاست کے عوام اپنا سیاسی فیصلہ پہلے ہی کر چکے تھے۔ 19 جولائی 1947ء کو آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے قراردادِ الحاقِ پاکستان منظور کی تھی، جو کشمیریوں کی اجتماعی خواہش، مذہبی وابستگی اور جغرافیائی حقیقتوں کا فطری اظہار تھی۔ اس کے بعد 24 اکتوبر 1947ء کو کشمیری عوام نے بھارتی جارحیت کے خلاف علمِ آزادی بلند کرتے ہوئے پلندری کے نزدیک جونجال ہل کے مقام پر آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے قیام کا اعلان کیا۔ چند ہی ہفتوں میں تقریباً چار ہزار مربع میل رقبہ بھارتی تسلط سے آزاد کرا لیا گیا، جو آج آزاد جموں و کشمیر کہلاتا ہے۔ اسی دوران شمال میں گلگت بلتستان کے عوام نے بھی یکم نومبر 1947ء کو اپنی مدد آپ کے تحت 28 ہزار مربع میل علاقہ آزاد کرایا، اور یوں ریاست جموں و کشمیر کے دونوں بازو آزادی کی جانب گامزن ہوئے۔ یوں جب بھارت نے 27 اکتوبر کو فوجیں سری نگر میں اتاریں، تو نہ صرف یہ اقدام غیر قانونی اور غیر اخلاقی تھا بلکہ ایک ایسی ریاست پر جارحیت تھی جو پہلے ہی اپنی سیاسی سمت طے کر چکی تھی۔ یہ جارحیت بین الاقوامی قانون، تقسیمِ ہند کے اصولوں اور انسانی حقوق کی روح کی مکمل نفی تھی۔ بعد ازاں بھارت نے ظلم کو آئینی رنگ دینے کے لیے AFSPA اور PSA جیسے سیاہ قوانین نافذ کیے، جنہوں نے وادی کو ایک عسکری قید خانے میں بدل دیا۔ کشمیریوں پر جبر کے باوجود ان کی مزاحمت کبھی کمزور نہ پڑی۔ 5 اگست 2019ء کو بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35-A کا خاتمہ کر کے ریاست کی نام نہاد خودمختاری بھی چھین لی، مگر آزادی کی چنگاری آج بھی ہر کشمیری دل میں روشن ہے۔ اسی جبری پالیسی کے نتیجے میں اب وہ علاقے بھی بے چینی کی لپیٹ میں ہیں جو ماضی میں نسبتاً خاموش تھے۔ لداخ اس کی تازہ مثال ہے۔لداخ میں کرگل ڈیموکریٹک الائنس (KDA) اور لیہ اپیکس باڈی (LAB) نے حالیہ برسوں میں مشترکہ تحریک کا آغاز کیا ہے۔ یہ مطالبات اس امر کا ثبوت ہیں کہ بھارت کا“انضمام کا بیانیہ”زمینی حقائق سے متصادم ہے۔ اب وہ علاقے بھی احتجاج کر رہے ہیں جنہیں بھارت طویل عرصے سے خاموش اکثریت کے طور پر پیش کرتا رہا۔ اقوام متحدہ نے 1948ء سے 1957ء کے دوران کشمیر پر بارہ قراردادیں منظور کیں جن میں واضح طور پر کہا گیا کہ ریاست جموں و کشمیر کا مستقبل عوام کی آزادانہ رائے شماری سے طے ہو گا۔ مگر ان قراردادوں پر عمل درآمد آج تک نہیں ہو سکا۔ عالمی طاقتوں کی خاموشی نے بھارتی جبر کو جواز عطا کیا۔ اس کے برعکس، پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھی ہے۔ پاکستان کے تمام ادوار میں — قائداعظم محمد علی جناح سے لے کر موجودہ قیادت تک — یہ موقف کبھی متزلزل نہیں ہوا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ قائداعظم نے کہا تھا:“کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ اگر کشمیر پر دشمن قابض ہو گیا تو پاکستان کی حیات خطرے میں پڑ جائے گی۔”اسی تسلسل میں ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں اعلان کیا تھا:“ہم ہزار سال تک بھی لڑیں گے، مگر کشمیر پر کبھی سودے بازی نہیں کریں گے۔”یہی جذبہ آج بھی پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت میں زندہ ہے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اپنے حالیہ خطاب میں واضح الفاظ میں کہا:“کشمیر پاکستان کی رگِ جاں ہے۔ افواجِ پاکستان کشمیری عوام کی قربانیوں کو سلام پیش کرتی ہیں، اور بھارتی جارحیت کا ہر جواب مؤثر اور بھرپور انداز میں دیا جائے گا۔”انہوں نے یہ بھی باور کرایا کہ“بھارت کے غیر قانونی اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہیں، اور ہم عالمی ضمیر کو اس ناانصافی پر خاموش نہیں رہنے دیں گے۔”ا ن کا یہ بیان محض عسکری عزم نہیں بلکہ پاکستان کے دیرپا قومی موقف کا استعارہ ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت بھی اسی یکسوئی سے کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ سابق وزیراعظم محمد نوازشریف و وزیرِ اعظم شہباز شریف جو بات خود کشمیر النسل ھیں اور وہ کشمیر سے جزباتی وابستگی رکھتے ھیں انہوں نے ھمیشہ کشمیریوں کو عزیز از جان رکھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں کہا:“جنوبی ایشیا میں امن و استحکام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کشمیری عوام کو ان کا حقِ خود ارادیت نہیں ملتا۔ بھارت کو سمجھنا ہو گا کہ جبر سے ضمیر نہیں دبایا جا سکتا۔”پاکستان کے عوام ہر سال یومِ سیاہ کے موقع پر ملک بھر میں ریلیوں، مظاہروں اور تقاریر کے ذریعے کشمیری بھائیوں سے اپنی یکجہتی کا عملی اظہار کرتے ہیں۔ یہ کمٹمنٹ صرف سیاسی یا سفارتی نہیں بلکہ ایک نظریاتی اور ایمانی رشتہ ہے۔ آج جب دنیا نئے جغرافیائی توازن کے دور میں داخل ہو رہی ہے، کشمیر کا مسئلہ عالمی ضمیر کے لیے ایک کسوٹی بن چکا ہے۔ اقوام متحدہ کو اب یہ احساس کرنا ہو گا کہ اس کے اپنے فیصلے اگر عمل سے خالی ہوں تو انصاف محض خواب بن کر رہ جاتا ہے۔27 اکتوبر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ یہ دن صرف سوگ نہیں بلکہ بیداری، احتساب، اور آزادی کے عہد کی تجدید کا دن ہے۔ یہ وہ دن ہے جو انسانیت کو یاد دلاتا ہے کہ ظلم خواہ کتنا بھی طاقتور ہو، مگر تاریخ کا فیصلہ ہمیشہ حق کے حق میں ہوتا ہے۔ کشمیر کی یہ داستان ایک دن مکمل ہو گی — کیونکہ ظلم کی ہر رات کے بعد، آزادی کی صبح لازمی ہے۔

Related Articles

Back to top button