
9 نومبر برصغیر کی تاریخ کا ایک ایسا دن ہے جو فکر، شعور، خودی اور بیداریِ امت کی علامت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔یہ دن اس عظیم مفکر، شاعرِ مشرق، علامہ محمد اقبالؒ کی پیدائش کا دن ہے۔ایک ایسی ہستی جنہوں نے اپنی علم و بصیرت، شاعری اور فلسفہ خودی کے ذریعے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں میں نئی روح پھونکی بلکہ آزادی کے خواب کو ایک حقیقت کی صورت میں پیش کیا۔ علامہ محمد اقبالؒؒ کی زندگی محض شاعری کا سفر نہیں بلکہ ایک فکری انقلاب کی داستان ہے، جس نے غلام ذہنوں کو آزاد سوچ عطا کی اور محکوم قوم کو اپنی منزل کی سمت رہنمائی دی۔علامہ محمد اقبالؒ 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مشن اسکول سیالکوٹ سے حاصل کی، جہاں ان کے اساتذہ میں مولوی میر حسن جیسے جید عالم شامل تھے جنہوں نے علامہ محمد اقبالؒ کے اندر علم و فکر کی پیاس کو بیدار کیا۔ بعد ازاں انہوں نے لاہور کے گورنمنٹ کالج سے فلسفہ میں ایم۔اے کیا اور پروفیسر ٹی۔ڈبلیو۔آرنلڈ جیسے روشن دماغ استاد سے متاثر ہو کر اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ کا رخ کیا۔ کیمبرج یونیورسٹی سے فلسفہ میں ڈگری حاصل کی، میونخ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی مکمل کی اور لندن سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔یہ تمام مراحل ان کے ذہن کو مزید وسعت دینے اور فکر کو عالمی تناظر میں ڈھالنے کا ذریعہ بنے۔یورپ میں قیام کے دوران علامہ محمد اقبالؒؒ نے مغربی تہذیب کی ظاہری چمک دمک کو قریب سے دیکھا، ان کی گہرائی میں چھپے روحانی خلا کو بھی محسوس کیا۔ اسی مشاہدے نے ان کے فکر کو یہ سمت دی کہ مسلمان دنیا میں عزت و وقار حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی اصل روحانی طاقت یعنی ایمان، خودی اور عمل پر دوبارہ یقین کرنا ہوگا۔ ان کے مشہور اشعار،،خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے،خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضاکیا ہے،،اسی فلسفے کی بنیاد ہیں۔علامہ محمد اقبالؒؒ نے اپنی شاعری کو محض جذباتی اظہار نہیں بلکہ ایک پیغام کی صورت میں پیش کیا۔ ان کی اردو اور فارسی شاعری کا بنیادی مقصد امت مسلمہ میں بیداری پیدا کرنا تھا۔ انہوں نے غلام قوموں کو یاد دلایا کہ ان کے اندر بے پناہ صلاحیتیں پوشیدہ ہیں، صرف خودی کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ان کی نظم شکوہ اور جوابِ شکوہ میں امت کی زبوں حالی، مایوسی اور پھر امید و عمل کی دعوت واضح طور پر جھلکتی ہے۔علامہ محمد اقبالؒؒ کی شاعری میں عشقِ رسول ﷺ ایک مرکزی اور نمایاں مقام رکھتا ہے۔ان کے نزدیک نبی کریم ﷺ سے محبت ہی ایمان کی اصل بنیاد ہے۔ وہ فرماتے ہیں،،کی محمدﷺ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں۔ یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں،،یہ شعر صرف عقیدت نہیں بلکہ علامہ محمد اقبالؒ کے روحانی نظریے کی وضاحت ہے کہ جب انسان عشقِ رسول ﷺ میں ڈوب جاتا ہے تو وہ دنیاوی خوف و لالچ سے آزاد ہو کر ایک اعلیٰ مقصد کے لیے جیتا ہے۔علامہ محمد اقبالؒؒ نے اپنی شاعری میں مسلمانوں کو مغرب کی اندھی تقلید سے بچنے کی تلقین کی۔وہ جدید علوم کے مخالف نہیں تھے بلکہ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان سائنس اور فلسفہ ضرور حاصل کریں پر اپنی روحانی شناخت کو فراموش نہ کریں۔ ان کے نزدیک علم تب ہی مفید ہے جب وہ ایمان اور اخلاق کے ساتھ جڑا ہو۔یہی پیغام ان کی شہرہ آفاق تصانیف“بالِ جبریل،بانگِ درا،ضربِ کلیم،اور،ارمغانِ حجاز،میں بار بار نظر آتا ہے۔برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا تصور سب سے پہلے علامہ اقبالؒ نے ہی پیش کیا۔ 1930 کے الہ آباد خطبے میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ،،میں دیکھتا ہوں کہ پنجاب، سرحد، بلوچستان اور سندھ کو ایک متحدہ اسلامی ریاست کی شکل میں منظم ہونا چاہیے تاکہ مسلمان اپنی تہذیب، ثقافت اور مذہب کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکیں۔علامہ محمد اقبالؒؒ کا یہ تصور آگے چل کر قیامِ پاکستان کی نظریاتی بنیاد بن گیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے بھی خود اعتراف کیا کہ پاکستان کا خواب دراصل علامہ محمد اقبالؒؒ کے افکار کی تعبیر ہے۔علامہ محمد اقبالؒؒ کی فکر کا ایک پہلو عوامی بیداری سے بھی جڑا ہے۔ انہوں نے نوجوانوں کو امت کا سرمایہ قرار دیا اور ان میں خود اعتمادی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ وہ نوجوانوں کو شاہین کا استعارہ دیتے ہیں۔ایک ایسا پرندہ جو بلندیوں پر اڑتا ہے، اپنی قوت پر بھروسہ رکھتا ہے اور کسی کے رحم و کرم پر نہیں جیتا۔ علامہ محمد اقبالؒ کا شاہین دراصل ایک خوددار، محنتی اور باعمل مسلمان کا استعارہ ہے۔ ان کے اشعار،،نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے / ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی،،اسی یقین اور عزم کی علامت ہیں کہ مسلمان چاہیں تو دنیا میں پھر قیادت کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔علامہ محمد اقبالؒؒ کا کلام عوامی شعور بیدار کرنے میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے اشعار آج بھی تعلیمی نصاب، قومی تقریبات اور فکری مجالس کا حصہ ہیں۔ انہوں نے قوم کو بتایا کہ غلامی کا خاتمہ صرف سیاسی آزادی سے نہیں بلکہ فکری آزادی سے ممکن ہے۔ ان کا پیغام عمل، عشق، ایمان اور خودی کا امتزاج ہے۔ایسا فلسفہ جو آج بھی رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔علامہ محمد اقبالؒؒ کی علمی و فکری خدمات کا اعتراف نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر میں کیا گیا۔ انہیں،،شاعرِ مشرق،، کا خطاب ان کی اس غیر معمولی صلاحیت کے اعتراف میں دیا گیا جس کے ذریعے انہوں نے مشرقی تہذیب کو مغربی فکری یلغار کے مقابلے میں مضبوط بنیاد فراہم کی۔ ان کی فکر ایران، ترکی، مصر، افغانستان اور دیگر مسلم ممالک میں بھی مطالعہ و تحقیق کا موضوع بنی۔ان کی وفات 21 اپریل 1938 کو لاہور میں ہوئی، ان کے خیالات آج بھی زندہ ہیں۔ ان کا مزار بادشاہی مسجد کے پہلو میں واقع ہے، جہاں روزانہ ہزاروں لوگ ان کے لیے فاتحہ پڑھنے اور عقیدت کے پھول نچھاور کرنے آتے ہیں۔ علامہ محمد اقبالؒؒ کی اصل یاد یہ ہے کہ ہم ان کے افکار کو اپنی زندگیوں میں عملی طور پر اپنائیں۔یومِ اقبال ہمیں صرف ایک عظیم شاعر کی یاد نہیں دلاتا بلکہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ ہم نے بطور قوم ان کے خواب کو کس حد تک حقیقت بنایا۔ علامہ محمد اقبالؒؒ کا خواب ایک ایسی ریاست کا تھا جہاں اسلام کے اصولوں پر مبنی عدل، علم، کردار اور مساوات کا نظام قائم ہو۔ ان کی تعلیمات ہمیں پھر سے اپنے اندر وہی ولولہ، ایمان اور خودی پیدا کرنے کی دعوت دیتی ہیں جو قوموں کو عروج دیتی ہے۔علامہ محمد اقبالؒؒ کی زندگی کا پیغام آج بھی اتنا ہی تازہ ہے جتنا ان کے زمانے میں تھا۔عمل کی دعوت، ایمان کی تازگی، عشقِ رسول اللہ ﷺ کی روشنی اور خودی کی بیداری۔ ہم ان اصولوں کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں شامل کر لیں تو وہ پاکستان، جس کا خواب علامہ محمد اقبالؒؒ نے دیکھا تھا، ایک بار پھر دنیا کے سامنے ایک روشن مثال بن سکتا ہے۔
یقیناًعلامہ محمد اقبالؒؒ کی روح آج بھی یہی پکار رہی ہے۔،،افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر۔ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ،،یہی پیغام ہماری رہنمائی کا چراغ ہے، جو ہمیشہ ہمیں بیداری، خود اعتمادی اور ترقی کی راہ دکھاتا رہے گا۔



