مہاجرین کی اسمبلی نشستوں کو ختم کرنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا‘عبدالماجد خان

مظفرآباد(خبر نگار خصوصی)سابق وزیر خزانہ خان عبدالماجد خان نے کہا ہے کہ جمہوری روایات کے امین سب ارٹیکل چار کی صریحاً خلاف ورزی کر رہے ہیں، چند لوگوں کی جانب سے مہاجرین مقیم پاکستان کی نشستوں کو ختم کرنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز انہوں نے محاسب ڈیجیٹل سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عوامی جائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے چار مطالبات جن کی وجہ سے مہاجرین کی سیٹوں کو ختم کرنا تھا۔ ان مطالبات میں فنڈز کی کرپشن اور مہاجرین ممبران کی طرف سے تحریک کے عدم اعتماد کا باعث بننا اہم تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مہاجرین ممبران اسمبلی میں سے کتنے مہاجرین ممبران نے تحریک عدم اعتماد میں شرکت کی اور دستخط کیے۔ ووٹ دینا تو ممبران اسمبلی کا استحقاق ہے، یہ تاثر دینا کہ ہم اس معاملے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں غلط ہے۔ عبدالماجد خان نے کہا کہ تکمیل پاکستان کی جدوجہد ہمارا جزو ایمان ہے۔آزاد کشمیر میں مہاجرین جموں وکشمیر کو اکموڈیٹ نہ کرنے کی وجہ سے آج پاکستان میں بھی مہاجرین کسم پرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 1969 کے نوٹیفکیشن کو کسی نے چیلنج نہیں کیا کیونکہ اس کی بنیاد پر کوئی مہاجر نہیں کہلا سکتا۔2.7 ملین لوگوں کو اس کی سزا نہ دی جائے۔ ایک سوال کے جواب میں عبدالماجد خان نے کہا دو سابق وزرائے اعظم نے اس معاہدے کی جوازیت پر سوال اٹھائے ہیں، ہم نے اس کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔ مہاجرین کو یہ تاثر دینا کہ مہاجرین کی ریاست میں کوئی حیثیت نہیں ملک دشمن بیانیے کو تقویت دینے کی کوشش ہے۔دو تہائی اکثریت سے اسمبلی میں قانون سازی کے بعد نشستوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ موجودہ حکومت نے وزارتوں کی ضد تو پوری کر دی ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ریاست میں انشائاللہ جلد انتخابات ہوں گے۔ ایک اور سوال کے جواب میں عبدالماجد خان کا کہنا تھا کہ آزاد اور منصفانہ الیکشن کمشنر کی تعیناتی وقت کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر رانا ثنا اللہ کے بیان کے بعد غلط فہمیوں نے جنم لیا تھا، بہت سارے وفاقی وزرا کے حلقوں میں 60 سے 80 فیصد ووٹرز کشمیری ہیں۔ عبدالماجد خان نے کہا کہ واصف قیوم پلندری سے اور عارف عباسی مظفرآباد سے ایم پی اے کے انتخابات لڑ چکے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں عبدالماجد خان کا کہنا تھا کہ ہم نے غیر مشروط موجودہ حکومت کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تو یہ تاثر ختم ہو جانا چاہیے کہ تحریک عدم اعتماد کا محرک میں ہوں، قاسم مجید، میاں عبدالوحید اور سردار جاوید ایوب نے اس تاثر کو ختم کر دیا ہے۔ قبل ازیں بھی اگر غور کیا جائے تو عوام کے حقوق ہی کی جنگ لڑنے کے لیے ہمیشہ صف اول میں رہا ہوں۔ عدم اعتماد کے مستفیدگان کون تھے، یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ عدم اعتماد کا محرک میں رہا ہوں ووٹ تو سب نے دیے، ہمارے نام کے ساتھ یہ غلط تاثر لگا دینا سراسر زیادتی ہے۔ یہ عناصر آئے روز تحریک پیش کروانے والوں کے خلاف بات کیوں نہیں کرتے۔ معاہدے پر عمل درآمد کے لیے وقت تھا کس نے یہ وقت دیا۔ اس پر کیا کہوں۔ ایک بھی شرط پوری ہوتی دکھائی نہیں دی۔ یہ فرینڈلی میچ مہاجرین کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے رچایا گیا۔ اقتدار کے حصول کی کشمکش یقینی دکھائی دینے لگی ہے اب تو پاور سیکٹر میں زلزلے آنے ضروری ہیں۔ ایک اور سوال کا جواب میں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ریاست کا مستقبل محفوظ ہے، چند جتھوں کے اکٹھا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ ایک طرف ہندوستان ریاست میں ہندوؤں کو آباد کر رہا ہے دوسری جانب ہیومن رائٹس کی بات کرنے والوں کو اپنے گریبان میں دیکھنا چاہیے۔ ادھر کے بجائے اُدھر کی بات کرنی چاہیے۔ کمیٹی کے فیصلے کا انتظار ہے، یہ کمیٹی ہی غیر قانونی ہے۔ چند لوگوں کے کہنے لاکھوں کشمیریوں کے حقوق پر شب خون مارا جائے قبول نہیں۔میرے لیے وزارت اب کوئی معنی نہیں رکھتی، وسعت نظری اور دلیل سے گفتگو ہی ریاست کی بے توقیری کو محفوظ رکھ سکتی ہے۔ان کا کہنا تھاکہ ہندوستان کو موقع فراہم کرنے والے ہوش کے ناخن لیں۔



