مظفرآباد

خود مختار اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن قائم کیا جائے،لبریشن فرنٹ

راولاکوٹ (اخلاق احمد خان)چیئرمین جموں کشمیر لبریشن فرنٹ سردار محمد صغیر خان ایڈووکیٹ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ خودمختار اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن قائم کیا جائے اور بااختیار، آئین ساز اور جمہوری بنیادوں پر حق حکمران عوام کو فراہم کرنے کے لیے آئین ساز اسمبلی قائم کی جائے۔مظفرآباد اسمبلی میں سامراجی کٹھ پتلی تماشہ ختم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ نوآبادکاروں کی جانب سے کیے جانے والے حالیہ اقدامات پر اپنا موقف عوام تک پہنچانا اور اپنے مطالبات نوآبادیاتی حکمرانوں تک پہنچانا ہے۔گزشتہ دنوں مظفرآبادکی اسمبلی میں ایک بار پھر کٹھ پتلی تماشہ لگایا گیا ہے۔ پرانے چہروں کو نئے لبادے میں لپیٹ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت تبدیل ہو گئی ہے اور عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے نوآبادکار اور مقامی حکمران اشرافیہ کی صورت ان کے کٹھ پتلی سہولت کار اب سنجیدہ ہو چکے ہیں۔ درحقیقت یہ سامراجی نظام اور نوآبادیاتی قبضے کو دوام بخشنے والے وہ کردار ہیں، جن کی نہ کوئی پارٹی ہے، نہ کوئی نظریہ اور نہ ہی ان کا کوئی ضمیر ہے۔ یہ اپنے آقاؤں کے اشاروں پر کردار بدلتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس اسمبلی سے یہ چوتھا وزیراعظم عوام پر مسلط کروایا گیاہے، لیکن وزراء انیس بیس کے فرق سے وہی ہیں۔ یہ سلسلہ اس خطے کے عوام کے جمہوری، سیاسی اور آئینی حقوق پر ایک سامراجی ڈاکہ ہے، ایک کھلواڑ ہے اور سیاست پر ایک بد نما داغ ہے۔حق حکمرانی اور حق ملکیت کے نام پر اس سامراجی کھیل کو کسی صورت صورت تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ وہ یہاں غازی ملت ڈسٹرکٹ پریس کلب راولاکوٹ میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ زونل صدر سردار انصار خان، ضلعی کنوینر سردار خالد محمود کاشر، سردار محمد خلیل خان، ڈپٹی سیکرٹری جنرل یاور بٹ، ایس ایل ایف کے رہنما حنان بٹ اور دیگر درجنوں رہنما بھی موجود تھے۔سردار محمد صغیر خان ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ پاکستان کی ریاست اوربالادست طاقتور اداروں نے مظفرآباد کے اقتدار کے ڈھانچے کی اصلیت کو ستمبر اور اکتوبر میں ایک بار پھر خود ہی بے نقاب کیا ہے۔ جو کام پہلے پردے کے پیچھے بیٹھ کر حکومت پاکستان اور طاقتور ادارے کیا کرتے تھے، وہ اکتوبر میں مظفرآباد کے ایک لگژری ہوٹل کے کانفرنس روم میں کھلے عام کیا گیا۔ اس سے بھی بڑی شرم کا مقام یہ ہے کہ جمہوریت کے دعوے کرنے والی حکمران جماعتوں اور انسانی حقوق کی پاسداری کے دعویداروں نے مل کر غیر جمہوری اداروں کو سیاسی معاملات میں مداخلت کا کھلا لائسنس فراہم کیا ہے

Related Articles

Back to top button