
آزاد کشمیر کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ نے مظفرآباد میں پڑی اقتدار کی کرسی کے لیے تحریک آزادی کشمیر اور آزاد کشمیر کے بنیادی حقوق کا ہمیشہ سودا کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج نا صرف پاکستان و کشمیر بلکہ پوری دنیا میں انہیں زلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، بہادر، زندہ دل اور غیرت مند قومیں اپنے حقیقی محسنوں کو کبھی فراموش نہیں کرتیں لیکن اگر آزاد کشمیر کی طرف دیکھا جائے تو یہاں کی لیڈرشپ ہو یا عوام کی اکثریت انہوں نے کبھی اپنے محسنوں کی قدر نہیں کی، ہزاروں کشمیری نوجوانوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ہزاروں خاندان تحریک آزادی کشمیر کے لیے ہجرت پر مجبور ہوئے، ہزاروں ماؤں، بہنوں کو اپنی عزتوں سے ہاتھ دھونا پڑے، ہزاروں شیرخوار بچے ذبح ہوئے تحریک آزادی کشمیر کی جدوجھد میں نئی نئی داستانیں رقم ہوئیں، جنہیں لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ جاتے ہیں قلم رک جاتا ہے، مگر یہ سب کچھ اپنی جگہ، تمام جدوجھد تمام قربانیاں اپنی جگہ، اتنی قربانیوں کے باوجود اگر کسی کو غیرت نہیں آئی تو وہ کشمیری عوام کے اندر چھپے کشمیریت کا لبادہ اوڑھے منافقین ہیں، اور دوسری طرف جاہل عوام کو اپنے محسنوں کی قدر نہیں کر سکی اور منافقوں کے ہاتھوں بار بار استعمال ہوتی چلی جا رہی ہے، آزاد کشمیر کے ہزاروں نوجوانوں نے تحریک آزادی کشمیر کے لیے مقبوضہ کشمیر کے اندر عملی جدوجھد کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، مگر آج تک آزاد کشمیر کے حکمرانوں نے ان شھداء کے خاندان والوں کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ ان شھداء کے نام سے بھی واقف نہیں، جبکہ سیمینارز اور جلسے جلوسوں میں لفظ شھداء استعمال کرکے جھوٹی ہمدردیاں دیکھانے کی کوشش کرتے ہیں، انہی منافقین اور ان کو برادری تعصب کی بنیاد پر لیڈر بنانے والی جاہل عوام کی بدولت کشمیر آج تک آزاد نہیں ہو سکا، آج اسلام دشمن طاقتیں ہمارے ملک و معاشرے میں حقوق انسانی کے نام پر مختلف انجیوز کو لانچ کر کے اور نت نئی خطرناک قسم کی پالیسیاں وضع کرکے اور نئے نئے قانون لاکر کے ہمارا دشمن ہماری مشکلات میں آئے دن اضافہ کر رہا ہے، اب بھی وقت ہے خود کو بدلنے اور اپنے کام کرنے کے طریقہ کار کو بدلہ جائے، بلکہ اب تو اپنی تعلیمی اور عملی ترجیحات میں نمایاں تبدیلی لانے کا وقت، ہمیں اپنے کام میں دکھاوا کرنے کے بجائے زمینی حقیقتوں کے تناظر میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر عوام میں بیداری لانے کے لیے پہلے خواص میں بیداری لانے کی ضرورت تھی اس کے لیے سیمنار اور کانفرنسز اہم تھیں، مگر ہم نے وقتی اور ذاتی مفادات کی خاطر سیمینارز اور کانفرسز کا مذاق بنا کر رکھ دیا ہے،ہمارے ہاں سیمنار کی نوعیت، اس کے اہداف اس کے طریقہ کار وغیرہ سے یکسر مختلف ہیں، ہمارے ہاں سیمنار صرف اور صرف ذاتی پبلسٹی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے کرائے جا رہے ہیں۔۔۔ تنظیموں کے کام کرنے کا طریقہ بھی بڑی حد تک غلط اور منافقانہ ہے، اس پورے خطے کی حالتِ زار دیکھ کر ترس آتا ہے، انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ ان میں سے اکثر ذاتی مفادات میں جکڑے ہوئے ہیں تحریک آزادی کشمیر نام کی حد تک ہے بس، یہاں ایک بھی تنظیم ایسی نہیں جو حقیقی معنوں میں کشمیر کی آزادی کی بات کرنے کے ساتھ ساتھ تحریک آزادی کشمیر کے لیے عملی جدوجھد کر رہی ہو لہٰذا اگر کام کرنے کے طریقوں اور طرزِ فکر دونوں میں بروقت مناسب تبدیلی نہیں لائی گئی تو حالات بد سے بدتر ہوجائیں گے اللہ تعالی ہمارے پالیسی میکرز کو عقل سلیم اور مناسب حکمتِ عل کے ساتھ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین



