حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اور تحفظ ختم نبوت

حضور خاتم النبیین حضرت سیدنا و مولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کی حامل ہر ہستی اہل ایمان کے لیے واجب التعظیم ہے۔اس نسبت کے حامل حضرات کے قافلہ سالار تاجدارِ صداقت افضل البشر بعد الانبیاء بالتحقیق حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔متعدد آیات قرآنی و احادیث مبارکہ آپ کی عظمت پر دلالت کرتی ہیں۔آپ کی صحابیت نص قرآنی سے ثابت ہے جس کا انکار کفر ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر بلا چون و چرا اسلام قبول کیا اور پھر سب کُچھ آپ کے قدموں میں لا کر رکھ دیا۔اپنی جان تک کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سفر و حضر کے ایسے مصاحب بنے کہ معیت مصطفٰی کی نسبت سے مشرف ہستیوں میں بھی اعلیٰ ترین ٹھہرے۔زندگی کی ہر خواہش کو اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرنا محبت کی وہ معراج ہے جس میں آپ منفرد و یکتا ہیں۔وصال نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس جرات و ہوشمندی سے آپ نے معاملات کو سنبھالا وہ آپ ہی کا حصہ ہے۔پیدا شدہ فتنوں میں سب سے بڑا فتنہ انکار ختم نبوت کا تھا جس نے امت کے اندر ایک ہیجانی کیفیت پیدا کر دی تھی بہت سے لوگ اس فتنے کا شکار ہو کر مسیلمہ کذاب و دیگر مدعیان کے ہمراہی بن چکے تھے۔انکار ختم نبوت تمام فتنوں کی جڑ اور دین اسلام کی پر شکوہ عمارت کی بنیادوں کو منہدم کرنے کے مترادف ہے۔اس سے جملہ عقائد اسلامی کے انکار کا دروازہ کھلتا ہے۔دور حاضر میں بعض ناواقف لوگ اسے مختلف مکاتب فکر کے درمیان اختلافی امور جیسا کوئی مسئلہ سمجھتے ہوئے اس کی نزاکت سے نا آشنا ہیں اور وہ اس مسئلے میں خدمات سرانجام دینے والوں کو شدت،انتہا پسند اور نہ جانے کیا کیا سمجھتے ہوئے ان کی مذمت سے بھی نہیں چوکتے۔انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایسا ہرگز نہیں ختم نبوت کا انکار دراصل انکارِ توحید ہے کہ جب کائنات کے خالق و مالک کی طرف سے واضح اور محکم طور پر اعلان کیا جا چکا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور رسول ہیں اور ان پر سلسلہ نبوت مکمل ہو چکا ہے اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آ سکتا۔ایسے میں کوئی کذاب سامنے آئے اور خالق کائنات کی طرف (معاذ اللہ) جھوٹ منسوب کرتے ہوئے دعویٰ نبوت کرے اور نام نہاد مسلمان اس کی تباہ کاریوں کو سمجھتے ہوئے بھی خاموش رہیں یا تاویلات کرکے اس کے تحفظ کی کوشش کریں تو کہاں کا ایمان اور کہاں کا دین؟ایسے لوگوں کو سیرتِ تاجدارِ صداقت کا مطالعہ کرنا ہوگا کہ ہمارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک کی رو سے ہر کلمہ گو پر لازم ہے کہ آپ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑے۔ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ایک قانون یہ بھی بنایا تھا کہ بدری صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پیرانہ سالی و احترام کے سبب اب ہر طرح کی فوجی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ ہیں،لشکر اسامہ، منکرین زکوٰۃ اور دیگر مہمات میں یہی اصول اپنایا گیا لیکن جب ختم نبوت کے منکرین کے خلاف جنگ کا مرحلہ آیا تو آپ نے معاملے کی نزاکت اور حساسیت کے پیش نظر اپنے بنائے ہوئے اس اصول کو بالائے طاق رکھ دیا اور اعلان کیا کہ بدری صحابہ بھی لشکر میں شامل ہو جائیں۔حضرت سیدنا خالد، سیف اللہ (رضی اللّٰہ عنہ) کی سربراہی میں مسلمانوں کا عظیم لشکر ایک اور فتنے کا خاتمہ کرنے کے بعد مسیلمہ کذاب کی طرف روانہ ہوا جب کہ اس سے پہلے مسلمانوں کے دو حملے ناکام ہو چکے تھے مسیلمہ کذاب اپنے 40 ہزار لشکریوں کے ہمراہ یمامہ کے مقام پر ڈٹا ہوا تھا۔حضرت سیدنا خالد رضی اللّٰہ عنہ مدینہ سے مزید کمک حاصل کر کے اس پر حملہ آور ہوئے۔مسیلمہ کا لشکر بڑی جاں فشانی سے لڑا مگر اللہ سبحانہ و تعالٰی کی نصرت،حضرت سیدنا خالد کی بہترین حکمت عملی اور مسلمان مجاہدین کے شوق شہادت کے سامنے مسیلمہ کی فوج ڈھیر ہو گئی اور اس کے 20 ہزار لوگ قتل ہوئے جبکہ 1200 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا جن میں کم و بیش 700 حفاظ صحابہ تھے جبکہ نو سالہ غزوات نبوی میں مسلمان شہداء کی تعداد اس کا چوتھائی بھی نہیں۔اس سے واضح ہوا کہ ختم نبوت کا تحفظ کس قدر اہم ہے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس بات پر ذرا بھر بھی رعایت نہ دے کر رہتی دنیا تک کے لیے مثال قائم فرمائی کہ جب ختم نبوت کے تحفظ کا معاملہ ہو تو پھر تمام قاعدے قانون ایک طرف رکھ کر پوری تندہی سے اس مہم کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دو۔الحمدللہ،امت مسلمہ کے زعماء نے ہمیشہ سیرتِ صدیقی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہر دور میں تحفظ ختم نبوت پر مثالی اتحاد کا مظاہرہ کر کے دنیا پر واضح کیا ہے کہ مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کے اختلافات اپنی جگہ مگر جب تحفظ ختمِ نبوت کی بات آئے گی تو پوری امت وحدت کا عملی نمونہ پیش کرے گی اور اس سلسلے میں سنت صدیقی کو مدنظر رکھا جائے گا۔ دور حاضر میں عالمی شیطانی قوتیں مختلف حیلوں،بہانوں اور دام ہم رنگ زمین بچھا کر مسلم ملت کی توجہ اس مسئلے سے ہٹانا چاہتی ہیں۔بدقسمتی سے اس مہم میں انہیں بعض ملکی قوتوں کی آشیرباد بھی حاصل ہے۔ہندی دجال اور مسیلمہ کذاب کے نائب مرزا غلام قادیانی کے پیروکاروں کی سب سے زیادہ توجہ پاکستان پر ہے کہ یہاں ابھی تک محراب و ممبر آزاد ہے دیگر مسلم ممالک کی طرح حکومتی قید میں نہیں (اسی طرف مفتی اعظم پاکستان نے بھی گزشتہ دنوں اشارہ کیا ہے)ان کی کوشش ہے کہ پاکستان میں بھی دیگر ممالک کی طرح جبر کا ماحول پیدا کیا جائے تاکہ انہیں کھل کھیلنے کا موقع مل سکے۔اس کے لیے اگرچہ ابتدائی سطح پر کام شروع ہو چکا ہے لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں ان کا یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا کہ یہ کوئی عام ملک نہیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالی کے فضل اور حضور کی نگاہ کرم کی حامل مملکت خداداد ہے جہاں پر دجالی نظام کبھی بھی نہیں پنپ سکتا۔چاپلوس اور ہر آنے والے کو خوش آمدید کہتے ہوئے اس کے جوتوں میں بیٹھنے والوں کی نسبت کلمہ حق کہنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جس کا وقت آنے پر احساس ہو جائے گا۔ صرف ایک جماعت کو بدترین ظلم و تعدی کے ذریعے وقتی طور پر خاموش کروا کر کوئی مت سمجھے کہ ہم جیت گئے۔شمع رسالت کے پروانے تحفظ ناموس رسالت و ختم نبوت کے لیے ہر حد سے آگے جا سکتے ہیں،یہ اپنی جان تو دے سکتے ہیں مگر ناموس رسالت اور ختم نبوت کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ کرنا ناممکن ہے۔کتنے دکھ کی بات ہے کہ پاکستان کا وزیر قانون اسمبلی کے فلور پر اقرار کر رہا ہے کہ قادیانی آئین پاکستان کو مسترد کرتے ہوئے خود کو غیر مسلم نہیں سمجھتے۔اس کے باوجود بھی عالم کفر کی فرمائش پر ان کے ناز نخرے اٹھائے جا رہے ہیں شمعِ رسالت کے پروانوں کا ایک ہی موقف ہے کہ یہ لوگ آئین پاکستان کو تسلیم کریں اور اپنے حقوق لیں۔آئین کو مسترد بھی کریں اور حقوق کا مطالبہ بھی کریں ایسا نہیں ہو سکتا۔یوم وصال حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے موقع پر تنظیمات اہل سنت کے مشترکہ اتحاد اہل سنت رابطہ کونسل ازاد جموں و کشمیر کی عشرہء ختم نبوت منانے کی اپیل کا مدعا بھی یہی ہے کہ علماء کرام اور مذہبی سکالرز سیرتِ خلیفہء اول کی روشنی میں تحفظ ختم نبوت پر روشنی ڈالیں اور اس مسئلے کی حساسیت کو واضح کرتے ہوئے قوم کی صحیح سمت میں رہنمائی کریں۔امن و محبت کے نام پر بزدلی و بے حمیتی کا درس دینے والوں کو باور کروائیں کہ اگر امن مطلوب ہے تو اس کے تقاضے بھی پورے کرنے ہوں گے۔تحفظ ختم نبوت پر کام کرنے والے ہر صاحب ایمان کو اس سلسلے میں ہمہ جہت جدوجہد کی ضرورت ہے جس میں اہم ترین جہت آگہی مہم ہے۔زبان و بیان اور قلم و قرطاس کی صلاحیتوں کے حامل افراد امت کا فرض ہے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے تحفظ ختم نبوت مہم میں کلیدی کردار ادا کریں۔ حکومتیں اور ادارے اپنی نادانیوں اور بیڈ گورننس پر اظہار ندامت کے بجائے علماء کرام کو مطعون کرنا ترک کر کے اس مسئلے کی حساسیت کو سمجھیں،انہیں اعتماد میں لیں اور ان سے کھل کے بات کریں،ہر آنے والے حکمران کو سلام کرنے والے نام نہاد علماء کو مسترد کرتے ہوئے ایسے علماء ربانیین سے ڈائیلاگ کریں جو آپ کے اچھے کاموں پر داد و تحسین کے ساتھ ساتھ قابل اصلاح امور کو آپ کے سامنے رکھ سکیں جو اہل ایمان کے شایان شان ہے کہ مؤمن ایک دوسرے کا آئینہ ہیں۔فریق ثانی کو پابند کریں کہ وہ آئین پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے لیے حقوق کا مطالبہ کرے اور اس کے لیڈر عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے سے باز آ جائیں جو اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کر کے عالمی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔یوم وصال تاجدارِ صداقت حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ پر آپ کی خدمت میں خراجِ عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ آپ کے منہج کو اختیار کرتے ہوئے فتنوں کی سرکوبی ہے جن میں سر فہرست انکار ختم نبوت ہے تا ہم اس سب کے لیے حکمت و موعظۃ حسنہ کے قرآنی اصولوں کو رہنما بنانا بھی زعماء ملت کی ذمہ داری ہے۔




