گلگت بلتستان

اخباری صنعت کو درپیش مسائل کے حل کیلئے تین رکنی کمیٹی تشکیل

کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں محکمہ اطلاعات کو جی بی این ایس کی طرف سے باضابطہ تجاویز پیش کی جائیں گی،اجلاس میں فیصلہ

گلگت (پ ر) گلگت بلتستان نیوز پیپرز سوسائٹی (GBNS) کا ایک اہم جنرل باڈی اجلاس صدر جی بی این ایس ارشد ولی کی زیرِ صدارت مقامی ہوٹل میں منعقد ہوا، جس میں تنظیم کے بیشتر اراکین نے شرکت کی۔ اجلاس میں محکمہ اطلاعات کی جانب سے حال ہی میں جی بی این ایس کو موصول ہونے والے خط اور ایڈورٹائزنگ پالیسی (ترمیمی مسودہ) 2024 کے حوالے سے تفصیلی مشاورت کی گئی۔اجلاس کے دوران مقامی ہفتہ وار اور روزنامہ اخبارات کو درپیش مختلف مسائل، جن میں لینگویج چارجز، انگریزی اشتہارات کی بندش، 6 ستمبر ڈیفنس ڈے کے موقع پر آر اوز جاری ہونے کے باوجود متعدد اخبارات کے کلر چارجز میں کٹوتی، بلات کی ادائیگیوں میں تاخیر اور جی بی پیپر رول میں مجوزہ ترامیم جیسے امور شامل تھے، پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ ممبران نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ محکمہ اطلاعات کے خط کا باضابطہ جواب جنرل باڈی اجلاس کی مشاورت مکمل ہونے کے بعد دیا جائے گا، جس میں ایڈورٹائزنگ پالیسی ترمیمی مسودہ 2024 پر سفارشات کے ساتھ ساتھ جی بی این ایس کے دستور پر نظرِ ثانی کی تجاویز بھی شامل ہوں گی۔اجلاس میں اتفاقِ رائے سے اخباری صنعت کو درپیش مسائل کے حل کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں شاہد حسین حیدری، مہتاب الرحمن اور ارشد ولی شامل ہیں۔ کمیٹی کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ محکمہ اطلاعات کے سیکریٹری اور ڈائریکٹریٹ سے ملاقات کر کے اخباری صنعت کے مسائل کے حل کے لیے جامع سفارشات پیش کرے۔مزید برآں، فیصلہ کیا گیا کہ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں محکمہ اطلاعات کو جی بی این ایس کی طرف سے باضابطہ تجاویز پیش کی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ تنظیم ممبران کے لیے نئی ایس او پی (SOPs) بھی مرتب کرے گی، جن پر تمام اخبارات کو عمل درآمد کا پابند بنایا جائے گا۔ اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ گلگت پریس کلب، گلگت یونین آف جرنلسٹس اور جی بی این ایس پر مشتمل ایک مشترکہ کمیٹی قائم کی جائے گی تاکہ میڈیا سے وابستہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے مسائل کے حل کے لیے متحدہ لائحہ عمل تشکیل دیا جا سکے۔ اجلاس کے اختتام پر صدر جی بی این ایس ارشد ولی نے کہا کہ اخباری صنعت گلگت بلتستان میں جمہوری اقدار کی مضبوطی کی ضامن ہے، اور اس کے استحکام کے لیے تمام اداروں کو سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

Related Articles

Back to top button