کالمز

ویرانیِ دل

دل انسان کے وجود کی سب سے نازک، حسین اور گہری حقیقت ھے۔ دل انسان کی وہ نازک کائنات ھے جہاں احساسات کے رنگ، خوابوں کی خوشبو، اور محبتوں کی سرگوشیاں بسیرا کرتی ہیں۔ دل ہی وہ مرکز ھے جہاں محبت کے رنگ بستے ہیں، جہاں خوابوں کی نرم ہوا چلتی ھے، اور جہاں زندگی کی ساری کہانیاں جنم لیتی ہیں مگر جب یہی دل ویران ہو جائے، جب اس نازک آبگینے میں دراڑ آ جائے تو زندگی کی تمام رونقیں خزاں رسیدہ درختوں کی مانند مرجھا جاتی ہیں، تو یہ کیفیت ویرانء دل کہلاتی ھے۔
ویرانء دل دراصل اس کیفیت کا نام ھے جہاں امید کی شمع گل ہو جائے، جذبات کی بستی ویران ہو جائے اور سکون جاں کا چراغ ٹمٹمانے لگے۔ دل کی یہ ویرانی کبھی محرومیت سے، کبھی ٹھکرائے جانے کے احساس سے، کبھی دنیا کی ناقدری سے اور کبھی انسان کے اپنے ہی اندر پیدا ہونے والے خلا سے جنم لیتی ھے۔ ایسے میں دل، جو کبھی محبت کا مرکز تھا، اب ایک خاموش مقتل بن جاتا ھے اور جہاں کبھی خوشیوں کی ہنسی گونجتی تھی، اب وہاں تنہائی کی صدا سنائی دیتی ھے۔ مگر یہی ویرانء دل انسان
کو تخلیق، غور و فکر، اور خودی کی پہچان کی طرف لے جاتی ھے۔ شاعر اسی ویرانی میں شعر کہتا ھے، مصور اسی دکھ میں رنگ بھرتا ھے اور مفکر اسی خاموشی میں زندگی کا راز تلاش کرتا ھے۔ یوں دل کی ویرانی بربادی نہیں رہتی بلکہ تخلیق کے سوتے اسی سے پھوٹنے لگتے ہیں۔
ویرانء دل اگرچہ دکھ بھری کیفیت ھے مگر یہی انسان کو اس کے اصل تک لے جاتی ھے۔ دل کی ویرانی اگر صبر، شکر اور احساس کے چراغ سے روشن کی جائے تو یہی ویران بستی روح کی جنت بن جاتی ھے جو جذبے، خیال اور ادب کی لطافتوں کو یکجا کرتی ھے۔ دل ایک ایسا نازک ساز ھے جس کے ہر تار میں احساس کی کوئی نہ کوئی دھن چھپی ہوئی ہوتی ھے مگر جب محبت کا ہاتھ ان تاروں سے ہٹ جائے، جب خوابوں کی نرمیوں پر حقیقت کی کرچیاں برسیں، تو یہی دل اپنی نغمگی کھو بیٹھتا ھے، پھر اس کی ہر دھڑکن ایک آہ بن جاتی ھے اور ہر سانس میں ایک نامکمل صدا گونجتی ھے کبھی اندر کی خاموشی بھی دل کی ویرانی کا باعث بن جاتی ھے۔
انسان جب خود سے کٹ جائے، جب اپنی ذات کی روشنی کو بھلا دے تو دل کے آنگن کا اجڑ جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ھے۔ یہ ویرانی پھر کسی ایک شخص کے نہ ہونے کا ماتم نہیں رہتی بلکہ وجود کی تنہائی بن جاتی ھے۔ بقول شاعر،
دل ایک کائنات
جہاں کبھی چاندنی اترتی تھی
اب دھول اڑتی ھے۔۔۔۔۔۔
ویرانء دل، دراصل دکھ میں بھی حسن رکھنے والا محبت کا وہ دوہرا چہرہ ھے جو ٹوٹ کر بھی جگمگاتا ھے۔ ادھورا عشق فنا نہیں ہوتا بلکہ ابدیت کی راہ پا لیتا ھے۔ دل کی اس ویرانی کو قبول کرنا، اصل میں عشق کے فلسفے کو سمجھ لینے کا نام ھے۔ دل کی ویرانی اس بات کی گواہی ھے کہ وہاں کبھی محبت تھی، خواب تھے اور زندگی کی موسیقی گونجتی تھی۔ ادیب اور شاعر اسی ویرانی کے مسافر ہوتے ہیں وہ اسی دل کی راکھ میں معنی تلاش کرتے ہیں، اپنی ٹوٹی ہوئی دھڑکنوں سے تخلیق نکالتے ہیں۔ اسی درد سے وہ آگ جلتی ھے جو لفظوں کو جاوداں کر دیتی ھے۔
دل کی ویرانی انسان کو اس کے اندر کے سناٹے سے روشناس کرواتی ھے، جہاں وہ اپنے رب، اپنے عشق اور اپنے وجود سے آشنائی حاصل کرتا ھے تب ویرانء دل بوجھ نہیں بلکہ آبادی کی پہلی شرط قرار پاتی ھے۔ محبت کی انتہا دو صورتوں میں ھے، وصل کی صورت میں تکمیل یا ہجر کے رنگ میں تخلیق کا سرچشمہ۔ دل کا درد بظاہر ویرانی ھے مگر اصل میں امید کا استعارہ بھی ھے۔ دل کی ویرانی دراصل روح کی گہرائیوں میں اترنے کا وہ لمحہ ھے جب انسان ظاہری آسائشوں، رشتوں اور خوابوں سے محروم ہوتا ھے تو اس کی اپنے اندر کے سکوت سے ملاقات ہوتی ھے اگرچہ ابتدا میں یہ دکھ کی کیفیت ھے مگر یہی دکھ اور ویرانی انسان کو عرفان ذات تک لے جاتی ھے۔ اس طرح دل کی ویرانی بسا اوقات محض غم نہیں بلکہ دعوت بیداری ھے جہاں اس ویرانی کو فنا سمجھنے کے بجائے اس میں اپنی تجدید کا راز تلاش کرنا چاہیئے۔
اردو ادب کی تاریخ ویران دلوں کے نوحوں سے بھری پڑی ھے۔ میر، غالب، اقبال، فراز اور فیض، سب نے اس ویرانی کو الفاظ کے زیور سے آراستہ کیا ھے۔ دل کی ویرانی میں بھی ایک لطیفہ حسن پوشیدہ ہوتا ھے جو صرف اہل درد محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ ویرانی دراصل عشق کی معراج ھے جہاں انسان اپنی ذات، اپنی محبوب اور اپنے خالق، ان تینوں کو ایک ہی دائرے میں محسوس کرتا ھے۔ یہ ویرانی دراصل وہ خلا ھے جو کبھی پر نہیں ہوتا اور یہی خلا تخلیق، محبت اور روحانیت کا سر چشمہ بن جاتا ھے۔ ویرانء دل کو بربادی سمجھنا فاش غلطی ھے بلکہ حقیقت میں یہ محبت کی پختگی، روح کی گہرائی اور انسانیت کی اصل ھے۔
بقول شاعر،
عادت اکیلے پن کی جو پہلے عذاب تھی
اب لطف بن گئی ھے، اذیت نہیں رہی

Related Articles

Back to top button