مظفرآباد

وزیرجنگلات ٹنڈالی ریسٹ ہاوس سمیت دیگرمال مسروقہ واگزارکرائیں‘اعجازکالاعوان

مظفرآباد(سپیشل رپورٹر)دارالحکومت مظفرآباد کے سیاسی و سماجی رہنماء اعجاز کالا اعوان نے کہا ہیکہ اندھیر نگری چوپٹ رات ساڑھے چار سال وزارت جنگلات نے کروڑوں روپے کی کرپشن کے بعد جاتے جاتے مال غنیمت کے طور پر ایل ای ڈی،ٹی وی، کمپیوٹر، ڈسپنسردیگر قیمتی سامان بھی سابق وزیر اکمل سرگالہ ہمراہ لے گئے۔ چوری کیے گئے سامان کی قیمت لاکھو ں میں بتائی جاتی ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزارت جنگلات گزشتہ چار سال میں کروڑوں روپے کی کرپشن کی زد میں رہی ہے نیلم سے قیمتی لکڑی دیودار سمیت دیگر علاقوں سے سمگلنگ کا دھندہ عروج پر رہا ہے۔ سابق وزیراعظم چوہدری انورالحق اپنے دور اقتدار میں د عوے کرتے تھے کہ کرپشن مٹائی جائے تو ہم اس وقت بھی بتاتے رہے اور آج بھی کہتے ہیں کہ وزارت جنگلات میں تحقیقات کرائی جائے تو پتہ چل جائے گا کہ کیا کیا گل کھلائے گئے اس کرپشن میں اوپر سے نیچے تک سب شامل تھے اعجاز کالا اعوان نے کہا کہ بڑے بڑے سکینڈل سامنے آء ے کوئی کارروائی نہ ہوئی کوئی تس سے مس نہیں ہوا اگر ہمارا دعوہ غلط ہے تو سابق وزیر جنگلات اور چند آفیسران جن کی ہم نشاندہی کریں تو ان کی 5سال پہلے کی جائیدادیں چیک کرلیں تو دو دھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ صاف شفاق تحقیقات ہو جائے اور اگرہمارا دعوی غلط ثابت ہوا تو جو سزا چور کی وہ ہماری ہم بھگتنے کیلئے تیار ہیں انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ مطالبہ کیا کہ لکڑی کو ضائع نہ کیا جائے ورنہ حکومت کو خسارہ ہو گا ہمیں یہ جواب دیا گیا کہ ہم نے لکڑی مہنگی کر کے خسارے کو پورا کر لیا ہے کیا یہی گڈ گورننس تھی کہ پہلے چیز کو ضائع کیا جائے اور جو باقی بچی ہے اس کی قیمت بڑھا کر عوام کا خون نچوڑا جائے۔ مظفرآباد شہر کے لوگ 450روپے فٹ لیتے تھے اب 3400روپے فی فٹ خریدنے کی سقت نہیں یہ ظلم عظیم ہے ہم وزیرجنگلات سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ لکڑی کی قیمت واپس 450روپے پر لے آئیں اعجاز کالا اعوان نے کہا کہ وزیر جنگلات جاتے جاتے ٹنڈالی ریسٹ ہاؤس اور وزارت جنگلات کے دفتر کا سامان بھی وزیر جنگلات اور ان کا عملہ لے اڑے یہ سارا سامان محکمہ جنگلات نے مہیا کیا ہوا تھا جس کی قیمت کئی لاکھ سے زیادہ ہے انہوں نے وزیر جنگلات سردار جاوید ایوب سے مطالبہ کیا کہ معاملے کی تحقیقات کرائی جائے اور آفیسران سے یہ پوچھا جائے کہ ٹنڈالی رسٹ ہاؤس کا سامان کتنا تھا اور وہ کس نے چوری کیا اس کی تحقیقاتی رپورٹ عوام کے سامنے لائی جائے۔

Related Articles

Back to top button