خواتین کا تحفظ

عورت کا اِحترام ہر اِنسان پر لازِم ہے،لیکن افسوس کہ آج کے اِس ترقی یافتہ اور مہذب دور میں بھی دُنیا بھر کی عورت مختلف صورتوں میں ظُلم و سِتم کا سامنا کر رہی ہے۔اِنسانی حقوق سے وابستہ تمام عالمی تنظیمیں اِ س حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں، اُن کے پاس ایسے مستند شواہد اور تفصیلی رپورٹس موجود ہیں جن میں واضح کیا گیا ہے کہ دُنیا کے کِن ممالک میں عورت کے ساتھ ناروا سُلوک، نااِنصافی یا عدمِ مُساوات روا رکھی جاتی ہے، یہ عالمی تنظیمیں اعلیٰ سطح پر آواز بھی اُٹھاتی ہیں، حکومتوں کو سفارتی انداز میں نہ صرف سر زَنش کی جاتی ہے بلکہ تاکید کی جاتی ہے کہ خواتین کے تحفظ کے لئے مؤثر اور ٹھوس قوانین وضع کئے جائیں۔پاکستان میں خواتین پر ہونے والے ظُلم و سِتم اور تشدد کی وارداتوں سے پوری دنیا آگاہ ہے،شاید ہی کوئی دِن ایسا گزرتا ہو جب میڈیا میں عورت کے ساتھ کِسی نہ کِسی قِسم کی نااِنصافی،زیادتی یا بے رحمی کی خبر نشر نہ ہوتی ہو، اِس کے باوجود مُلک کا کوئی اِدارہ، خصوصاََ وزارتِ قانون، جس کی بنیادی ذِمہ داری ہے کہ پورے مُلک میں قانون کا نفاذ یقینی بنائے اور اُس پر عمل درآمد کو قائم و دائم رکھے،اپنا فرض ادا کرتا نظر نہیں آتا، ایسے ادارے کے وجود پر مُہرِ خاموشی لگا دینا شاید بہتر ہو،بجائے اِس کے کہ وہ اِنصاف کے نام پر نااِنصافی کو رواج دے۔جب کوئی اِدارہ،ریاست میں اپنے ہی عوام کو تحفظ اور اِنصاف فراہم کرنے سے عاجز ہو جائے تو اُس کا بند کر دیا جانا ہی قرینِ انصاف ہے،ایسی عمارت کی پیشانی پر ایک تختی آویزاں کر دینی چاہئے "یہ اِدارہ تاحیات بند رہے گا”۔ دورِجدید میں بھی دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں عورت کے خِلاف جرائم میں مسلسل اِضافہ ہوتا جارہا ہے، عصمت دری، جنسی بلیک میلنگ، اغواء اور گھریلو تشدد اب گویا معمول کی خبریں بن گئی ہیں،عام لوگ رفتہ رفتہ ایسے واقعات کے عادی ہوتے جا رہے ہیں، اور اِس المناک صورتِ حال پر سماجی سطح پر نہ کوئی بے چینی نظر آتی ہے نہ ہی کوئی اِضطراب، یہ بے حِسی خود ایک نہایت تشویشناک عِلامت ہے کیونکہ بُرائی اور جرم کے خِلاف ردِّعمل جتنا کمزور پڑتا جائے،جرائم کی جسارت اور اُن کی تعداد اُتنی ہی بڑھتی چلی جاتی ہے۔مَرد کے اندر حکمرانی اور بالا دستی کا ایک ایسا جذبہ موجود ہوتا ہے جو اکثر اُسے عورت پر مختلف صورتوں میں ظُلم و تشدد پر آمادہ کرتا ہے،وہ بخوبی جانتا ہے کہ عورت مُعاشرتی و معاشی طور پر کمزور اور بے بس ہے،اِسی کمزوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کبھی وہ اُس کے ساتھ حیوانوں جیسا سُلوک کرتا ہے اور کبھی دباؤ اور دھونس کے ذریعے اس اِحساسِ برتری کی تسکین حاصل کرتا ہے جو اُس کے باطن میں چھپا بیٹھا ہے، یہ دونوں کام، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے، دُنیا کے وہ آسان ترین اعمال ہیں جن کا اِرتکاب مرد بڑی سہولت سے کر لیتا ہے۔پاکستان میں قانون کے حقیقی نفاذ اور مؤثر عدالتی عمل کی عدم موجودگی نے عورت کو اُس دلدل میں دھکیل دیا ہے جہاں سے اُس کا نکلنا ناممکن ہے۔ گھروں میں کام کرنے والی خواتین، ،فیکٹریوں میں مزدوری کرنے والی عورتیں یا مختلف شعبوں میں محنت کرنے والی ورکنگ ویمن، یہ سب اُس وقت ظُلم کا شکار بنتی ہیں جب وہ اپنے نکمّے،جواری،شرابی یا کِسی بھی نشے کے عادی شوہروں کو اپنی کمائی دینے سے انکار کرتی ہیں، ظُلم کی انتہاتب ہوتی ہے جب یہی نام نہاد شوہر عورت کے جسمانی اعضاء کاٹ دیتے ہیں یا اُس کے خوبصورت چہرے پر تیزاب پھینک کر اُسے زندگی بھر کا داغ دے جاتے ہیں،ایسے سنگ دل لوگوں کو معاشرے میں جینے کو کوئی حق نہیں،ملک میں قانون کے مؤثر نفاذ کی عدم موجودگی کا فائدہ اُٹھا کر یہ لوگ دوسروں پر تو دھونس، دھمکی یا جبر نہیں چلا سکتے مگر اپنے ہی گھر کی عورت اور بچوں پر تشدد کرتے ہیں۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ اِس معاشرے میں بے بنیادگی اور بے حِسی روز بروز کیوں بڑھتی چلی جا رہی ہے؟ عورت آخر کیوں ایک کِھلونا بن کر رہ گئی ہے؟۔ پاکستان جیسے مُلک میں فوری طور پر ایسے اِسلامی قوانین کے نفاذ کی ضرورت ہے جو کم از کم خواتین اور معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو عبرتناک ترین سزائیں دے سکے، جدید قوانین میں بھی عورت کی عزت اور اُس کی عصمت کے تحفظ کو بنیادی حیثیت حاصِل ہے،مغربی ممالک میں اگرچہ اِسلامی قانون نافِذ نہیں مگر وہاں بھی ریپ کے مجرم کو کم از کم سات سال کی قید سخت سزا سنائی جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ جب وہ معاشرے،جن کی بنیاد دِین پر نہیں رکھی گئی، خواتین کے تحفظ کیلئے اِتنی سنجیدگی دِکھا سکتے ہیں تو اِسلامی جمہوریہ کہلانے والا مُلک آخر کب وہ اُصول نافِذ کرے گا جو خود اِسلام نے واضح طور پر بیان کئے ہیں؟۔یاد رہے کہ عورت محض کوئی جنسی وجود یا کِھلونا نہیں بلکہ معاشرے میں اُس کاایک منفرد مقام اور کِردار ہے،اور اپنی پوری صلاحیتوں اور خدمات کی بنیاد پر وہ انتہائی عزت و احترام کی مستحق ہے۔ہر حکومت کا فرض ہے کہ جِنسی جرائم سے متعلق قوانین کو نہایت سخت اور مؤثر بنائے،عورت پر تشدد یا اُس کی عصمت دری کوئی معمولی جُرم نہیں،یہ ایک ایسا زخم ہے جو عورت کی پوری شخصیت کو برباد کر دیتا ہے۔میرا مقصد کِسی فرد، حکومت یا جماعت پر تنقید کرنا نہیں،ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے اور اِنسان کا ضمیر ہی وہ پہلی عدالت ہے جو اُسے ملامت بھی کرتا ہے اور اُس کے کِردار کا فیصلہ بھی سناتا ہے۔اور کچھ کیا جائے یا نہ کیا جائے،کم از کم ایسا مؤثر قانون تو بنایا جائے جس کے ہوتے ہوئے کوئی معصوم بچہ یا عورت اغواء نہ ہو سکے،ریپ کا شکار ہونے کے بعد وہ ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچ سکیں۔



