کالمزمظفرآباد

گاؤں دولائی ناگنی کی زاہدہ بی بی……مشکلات سے امید کے کھیتوں تک کا سفر

تحریر:سندس سلیم پبلسٹی آفیسر محکمہ زراعت

کامیابی کی یہ داستان مظفرآباد کے نواحی گاؤں دولائی ناگنی کی ایک محنتی خاتون زاہدہ بی بی کی ہے جس نے اپنے ارادوں کی مضبوطی اور مسلسل محنت سے عزم و ہمت کی ایسی مثال قائم کی ہے جو معاشی طور پر بے سہارا دوسری خواتین کے لیے مشعلِ راہ بن چکی ہے۔ زاہدہ بی بی ایک بیوہ خاتون ہیں، ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ شوہر کے انتقال کے بعد وہ شدید معاشی مشکلات کا شکار ہوئیں، مگر ہمت نہ ہاری۔ انہوں نے اپنے بھانجے طاہر عظیم سے ملازمت کے حصول کی درخواست کی، تاہم طاہر عظیم نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنی زمین پر کاشتکاری کے ذریعے خود کفیل بنیں، اور بیج و دیگر معاونت کی ذمہ داری خود لی۔ زاہدہ بی بی نے اپنی 5 کنال ملکیتی زمین پر روائتی کاشتکاری سے ہٹ کر قیمتی اور نقد آور فصلیں کاشت کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کا آغاز زعفران کی کاشت سے کیا۔ ان کی محنت رنگ لائی اور زعفران 85 ہزار روپے میں فروخت ہوا۔ یہ ان کی زندگی کا پہلا کامیاب قدم تھا۔
اس کامیابی کے بعد انہوں نے مونگ پھلی کی کاشت بھی شروع کی، جس کی ایک بوری 16 ہزار روپے میں فروخت ہوئی۔ شجرکاری کے موسم میں محکمہ زراعت کے عملہ نے ان سے رابطہ کیا اور مختلف اقسام کے پھلوں کے 33 پودے فراہم کیے۔
مزید برآں، محکمہ زراعت کی معاونت سے انہوں نے ہلدی کی کاشت بھی کی جو نہایت منافع بخش ثابت ہوئی اور تقریباً 80 ہزار روپے کی فروخت سے آمدنی حاصل ہوئی۔ زاہدہ بی بی محکمہ زراعت کی ممنون ہیں جس نے انہیں ہلدی کے بیج بلا معاوضہ فراہم کیے۔
زاہدہ بی بی نے وقت کے ساتھ اپنی زمین پر لہسن،، کڑم، بھنڈی، کنولا، کھیرا، بروکلی، سٹیویا، الائچی، پالک، فالسہ، ڈریگن فروٹ، ایووکاڈو، ناریل، مشروم اور زیتون سمیت بے شمار فصلیں اور پودے اگائے
ان کی محنت کا نتیجہ کچھ یوں ہے:
• کھیرا کی پیداوار: 10 من
• مشروم: 30 ہزارروپے آمدنی
• بروکلی: 51 ہزار روپے آمدنی
• بھنڈی: 75 ہزار روپے آمدنی
• کنولا: 25 کلوگرام پیداوار
کنولا کا تیل ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت راجہ ظہیر کی نگرانی میں نکلوایا گیا، جو محکمہ زراعت اور کسانوں کے مابین بہترین اشتراک کی علامت ہے۔
اس کے علاوہ زاہدہ بی بی نے اپنی زمین پر زیتون کے 52 پودے لگائے ہیں، جن کے پھل سے وافر مقدار میں زیتون کا تیل حاصل ہوا ہے۔ یہ ان کی کاشتکاری کے شوق، محنت اور سوجھ بوجھ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
زاہدہ بی بی کے مطابق:
“محکمہ زراعت میرے لیے میکے جیسی جگہ ہے، جب بھی کوئی رہنمائی یا معاونت درکار ہو، وہ ہمیشہ ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔”
زاہدہ بی بی صرف ایک کامیاب کاشتکارہ ہی نہیں بلکہ دیہی خواتین کے لیے ایک روشن مثال بھی ہیں۔ زیتون کی کاشت کے ساتھ ساتھ وہ گھریلو سطح پر اچار، مربے اور دیگر زرعی مصنوعات تیار کر کے فروخت کرتی ہیں، جس سے ان کے خاندان کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ حال ہی میں انہوں نے زرعی نمائش جلال آباد میں اپنی مصنوعات کا سٹال لگایا، جہاں ان کے اعلیٰ معیار اور محنت کو سراہتے ہوئے انہیں دوسرا انعام دیا گیا۔ زاہدہ بی بی کے سٹال میں زرعی مصنوعات کے علاوہ تسبیح کا پودا بھی تھا جس کے دانوں سے تیار منفرد اور خوبصورت تسبیح ناظرین کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔
آج زاہدہ بی بی نہ صرف معاشی طور پرخود کفیل ہیں بلکہ دیگر خواتین کے لیے حوصلے، محنت اور خود اعتمادی کی روشن مثال بن چکی ہیں۔زاہدہ بی بی کی کامیابی اس حقیقت کی عکاس ہے کہ اگر رہنمائی، محنت اور استقامت کو یکجا کر لیا جائے تو زرعی شعبہ معاشی خودمختاری کا مضبوط ذریعہ بن سکتا ہے۔ ان کی داستان نہ صرف ان جیسی دیگر بے سہاراخواتین کو بااختیار بنانے اور زراعت کے فروغ کے لیے ایک روشن مثال کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔بلکہ دستیاب وسائل کو دانشمندی اور محنت سے بروئے کار لا کر نوجوانوں میں بڑھتی ہوء بے روزگاری پر قابو پانے کیلئے ایک عملی نمونہ بھی ہے۔

Related Articles

Back to top button