کالمزمظفرآباد

یہ آتشزدگی نیلم کے جنگلات اور ماحولیات

تحریر:۔ راجہ محمد ممتاز خان

نیلم کے سرسبز جنگلات اور حسین آبشاریں مرغزار اور قدرتی وسائل جن کا حسن قدرتی نباتات قیمتی جڑی بوٹیوں سے مالا مال اور دنیا کا بہترین روبی نیلم ویلی اور معدنیاتی حسن سے مالا مال آج کل طویل آتشزدگی کی لپیٹ میں ہے ایک عرصہ سے لگی آگ نے سب کچھ راکھ کا ڈھیر بنا دیا اور ماحولیات کو تباہ و برباد کر دیا۔ سیاحت کو نقصان پہنچا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ آتشزدگی کی وجوہات کیا ہیں اور اس سلسلہ میں قانونی سازی اور مہاراجہ ہری سنگھ کے بنائے قوانین کیا ہیں۔
ایک ماچس کی تیلی آناً فاناً آتشزدگی سے کھربوں کا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ جنگلات والے آگ لگاتے ہیں۔ یہ تاثر ختم کرنا جنگلات والوں کا کام ہے۔ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ لاپرواہی سے اور بعض اوقات بچے بھی آگ لگا دیتے ہیں۔ وجہ کوئی بھی ہو اس سلسلہ میں قوانین اور آگاہی مہم چلائی جانی چاہیے۔ دراصل آج کل مادر پدر آزاد کا جو ماحول ہے اس نے ہماری ثقافت اقدار اور روایات کو جو نقصان پہنچایا ہے شاید ہم اس کا ازالہ بھی نہ کر سکیں۔ بے ہنگم جنگلوں کے اندر بے ہنگم سڑکوں اور عوام کی طرف سے خوب سے خوب تر کی تلاش میں۔ نیچر (Nature) کو ملیا میٹ کرنے میں ماحولیات کی جو تباہی اور بربادی ہوئی نہ کسی کو ادراک ہے نہ سمجھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیلم ویلی کی (مالیوں) میں سڑکیں پہنچ چکی ہیں اور گرین ٹورازم کے مام پر جو حشر و نشر ہے وہاں ماحول اور ماحولیات کی بات عجیب لگتی ہے۔
مہاراجہ ہری سنگھ کے بنائے ہوئے قوانین (فاریسٹ لامینول) میں تبدل نہیں ہوئی رعایت خواران کے لئے جنگل میں جانا ڈھوکوں میں مال مویشی رکھنا گھاس چرائی، گری پڑی لکڑی کا استعمال ٹی ڈی کوٹہ یعنی (ٹمبر ڈسٹریبیوشن) کا حقدار رعایت خواران کے لئے سہولیات کا انتظام اور جنگل سے تین میل دوری اور پانچ میل دوری کا فرق اور ان رعایت خواران کا تعین اس لئے تھا کہ وہ جنگلات میں آگ بجھانے والوں کی روزانہ کی بنیاد پر حاضری لگے گی اور غیر حاضروں کے خلاف کارروائی کرنا قانون موجود ہے۔ اگر عدالت سیشن کورٹ قتل کا مقدمہ بھی سن رہی تو سب سے پہلے سماعت ملتوی کر کے جج صاحب کو بھی آتشزدگی میں پہنچ کر آگ بجھانا ہو گی دیگر محکمے بھی اسی طرح قومی نقصان بچانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں اب یہ عمل مشکوک اور متروک ہوچکا ہے حالانکہ قانون موجود ہے۔ لوگ صرف محکمہ جنگلات کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں حالانکہ یہ کام ریاست کو کرنے چاہئیں اس لئے یہ قومی دولت کا ضیاع سب کی ذمہ داری ہے بلکہ میں تو کہوں گا جناب وزیراعظم آزادکشمیر اور کابینہ یہ کام کرے جب قومی سطح پر آتشزدگی سے اس قدر نقصان ہو جائے ذمہ دار لوگ کہہ رہے ہیں آتشزدگی کو پچاس دن سے زیادہ ہو گئے ہیں۔
کسی گاؤں پر اجتماعی جرمانے کا قانون بھی موجود ہے۔ لوگوں کو رعایت اسی لئے دی جاتی ہے کہ وہ محکمہ جنگلات کے ساتھ تعاون کریں۔ تعاون بھی عملی، نیلم ویلی میں جنگلوں میں لگی آگ کو بجھانے میں اگر تعاون نہ ہو تو محکمہ جنگلات بغیر کسی لگی پٹی کے قانون کے کٹہرے میں ان لوگوں کو لائیں۔ یہ رعایت اسی لئے دی جاتی ہے کہ جنگل میں آگ لگ جائے یا کوئی اور آفت ہو ملحقہ لوگ عملی تعاون کریں۔
یہاں پر یہ بھی کہہ دینا ضروری ہے کہ پہلے پہلے (رسوم) اور (ساون بنڈا) رواج فارسٹ گارڈ کو کمیونٹی کا فرد سمجھتے ہوئے لینے کا تحفظ حاصل تھا اگرچہ اب یہ رسم مفقود ہو چکی ہے۔ ورنہ فصل پکنے پر غلہ اور ساون میں گھی مکھن وغیرہ لیا جاتا تھا۔ لیکن تعاون بے مثال تھاجنگلوں کے اندر ایسے ٹریک بنائے جاتے تھے کہ وہ پت جھڑ کے موسم میں صاف کئے جاتے تھے۔ انسپکشن پاتھ بھی تھے اور آگ کو پھیلنے کو روکنے کے راستے بھی اور اس کے لئے بجٹ بھی تھا جبکہ آج کل یہ سب عمل مفقود ہو چکا ہے۔ آج محکمہ جنگلات بھی زوال پذیر ہو کر جدید دور میں داخل ہو چکا۔ بقول علامہ اقبال
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
نیلم کے جنگلات کیا جل رہے ہیں ہمارے دل جل رہے ہیں کچھ ضمیر جل رہے ہیں۔ ہمالیہ کے دامن اور اس سے ملحقہ علاقوں میں تو ایک رپورٹ کے مطابق 75% جنگلات ہونے چاہئیں۔ علامہ اقبال نے پہلے ہمالہ نظم لکھی۔
اے ہمالہ داستاں اس وقت کی کوئی سنا
مسکن آبائے انساں جب بنا دامن تیرا
ہمارے یہ جنگلات تو سرعام تباہ و برباد ہو رہے ہیں یہ پانی کے ذخائر کے امین سمگلروں پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو یہ سمگلنگ کی نظر ہوتے آپ کو نظر نہیں آتے۔ ہمیں تو نظر آ تے ہیں۔ وہ کمرشل جنگلات جو 27% اب بمشکل 9% ہیں کدھر گئے۔ یہ جنگلات ہماری زندگی کے امین اب تار تار ہیں۔ بحیثیت فارسٹری کارکن یہ میرا سوال ہے ذمہ داران سے۔ آپ نے جنگلات میں شجرکاری اس علاقے میں پیدا ہونے والی (Indigenous) اقسام سے کیوں نہ کی۔ یہ کیکر، دریاؤ، ایپل ایپل وغیرہ (Exotic) بیرون ملک کی اقسام نہیں؟ آپ نے تو یہ پودے شاردہ کیل میں لگائے ۔جلدی بڑھت پانے والی اقسام سیاسی مقاصد اور اعتراض کے لئے تھیں۔ جاپانی توت جو اسلام آباد میں بے قابو ہو چکا ہے وہاں کے مقامی پودے ٹھیک نہ تھے؟ ہمیں تو یہ پیشہ وارانہ بددیانتی نظر آتی ہے۔ اس تباہی کا ذمہ دار کون؟
تمام ذمہ داران سے میری گزارش ہے کہ وہ جنگلات اب ماحولیاتی بحالی پانی کے ذخائر اور جڑی بوٹی، پہاڑوں کی حفاظت کے لئے مختص کریں۔ معدنی ذخائر کو بچائیں۔ ورنہ ہر قسم کی حیات اپنے انجام کو پہنچ جائے گی یہ جو وطن مالوف (Habitate) تباہ ہو رہا ہے اور ہو چکا ہے اس کے اثرات ہر قسم کی حیات پر پڑیں گے۔ لہذا ان جنگلات کو بچائیں۔ یہ تمام قدرتی وسائل ہماری بقا کے ضامن ہیں۔ ہزاروں اقسام مفقود ہیں۔ یہ Fana اور Floura بربادی کے ذمہ دار ہم ہیں۔

Related Articles

Back to top button