کالمز

نیا وزیر اعظم،اسم اعظم

یہ ذولفقار بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی پ[ارٹی کیا کرنے جا رہی ہے، اس پارٹی نے تو1970سے لے کر آج تک بہت سی وزارت عظمیٰ دیکھ رکھی ہیں یہ عہدہ اس پارٹی کیلئے کوئی نئی بات نہیں ہے، اسی پارٹی کے ہی بینر تلے بیرسٹر سلطان محمود نے پہلی بار وزارت عظمیٰ کی مدت پوری کر کے ایک ریکارڈ بھی قائم کیا تھا، اب عام انتخابات کو صرف آٹھ ماہ رہ گئے ہیں جن میں سے تقریباََ تین ماہ تو اختیار یوں بھی چیف الیکشن کمشنر کے پاس چلا جائے گا، ایسے میں وزارت عظمیٰ کا کھیل کیا کھیلنا، اوپر سے اس وقت وزیر اعظم اور حکومت آزاد جمو کشمیر پر وعدوں اور معاہدوں کا بڑا بھاری بوجھ بھی مو جود ہے جسے اٹھانا اور ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا انتہائی مشکل اور جان جو کھوں کا کام ہے اب کوئی مانے یا نہ مانے یہ اُلجھی گتھیاں اگر کوئی سُلجھا سکتا ہے تو وہ صرف انوارالحق ہی ہو سکتا ہے،پھر ناکامی اور انتشار و انارکی کو جو سیاہ گہرا دھبہ لگنے کا اندیشہ ہے، تو وہ داغ وہی لگوائے نا جس نے معاملات کو اس نہج تک پہنچایا ہے، خواہ مخواہ میں چوہدری لطیف اکبر، چوہدری یاسین اور فیسل راٹھور یا دوسری صورت میں سردار یعقوب اپنے دامن پر اور پھر سب سے بڑی بات کہ پیپلز پارٹی کے دامن پر کیوں لگنے دیا جائے، صرف چند دنوں کے جھنڈی کے پھریروں کیلئے؟ اور یاد رکھیں اب”پری میچور“ 8ماہ کے وزیر اعظم کو پنشن وینشن کوئی نہیں لینے دے گا، یوں بھی سات ماہ کا بچہ تو بعد میں نیا بے چارہ گلی گلی یونہی روتا گاتا پھرے گا کہ ”جدوں آئی سَسڑی دی واری تے ٹُٹ گئی تڑک کر کے“ اُس وقت پھر صرف ”سَس ڑی“ کا دل ہی نہپیں ٹوٹے گا بلکہ پارٹی کی ساکھ اور دھاک بھی ٹوٹ جائے گی اور اجتماعی رونا ہو گا کہ ”اے دنیا کے رکھوالے۔ سُن درد بھرے میرے نالے“ اور بدنامی کا ایک پر نالہ ہو گا جو کسی بھی ممکنہ حکمران پارٹی (ن یا پی پی) کہ سر پہ گرے گا اور سر سے پاؤں تک ایک سرے سے دوسرے تک ایک راستہ سا بنا تا چلا جائے گا، اور یہ زخم پھر جلدی جلدی بھرنے والا نہیں ہو گا، اس کے ساتھ ساتھ اصل گھاؤ وہ ہو گا جو پوری ملت کو لگے گا،ا س وقت پاکستان نے اپنے خلوص اور محبت کا ثبوت دیتے ہوئے عوام کیلئے جو بہتر ماحول بنایا ہے اسے لے کر آگے چلنے کی ضرورت ہے، تاکہ آزاد جموں کشمیر کے لوگوں کا ڈگمگاتا ہوا اعتماد پوری طرح بحال کیا جا سکے، اور یہ بات ہر کشمیری کی بھی سمجھ میں آسکے کہ اس کی ملک پاکستان سے کوئی عداوت نہیں ہے،پاسبانان پاکستان سے کوئی بیر نہیں ہے نہ اس کی کوئی وجہ ہے اور نہ ہی کسی بغض کا کوئی جواز ہے، کیونکہ پاکستان نے جموں وکشمیر کیلئے اپنی بساط سے کچھ زیادہ ہی کیا ہے، اب اگر 78برسوں سے ”کشمیر بنے گا پاکستان“ جیسے نعرے سنتے ہوئے اپنے پن کا گمان یا یقین ہونے لگے تو اسے مثبت انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے، ہاں کچھ غلطیاں کوتاہیاں ادھر کے حکمرانوں سے ضرور ہوئی ہونگی، ان کے شکوے بھی ہونگے مگر یہ تو دیکھیں جن اپنوں کو ہم عمر بھر ووٹ دے دے کر تخت پر بٹھاتے رہے آج مُڑ کر تو دیکھیں وہ اس ملت کے ساتھ، تحریک آزادی جموں کشمیر کے ساتھ کیا کرتے رہے، انہیں تو کوئی بے وفا کہہ کر پھانسی پہ لگانے کی بات نہیں کر رہا،انہیں تو ہم صرف سنگدل کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں، اور ان کیلئے معافی اور دل کے دروازے ان کے ہاتھ جوڑنے سے پہلے ہی ہم نے وا کئے ہوئے ہیں، تو جنہوں نے بے لوث خدمت کی، قربانیاں دیں ان سے ہم بُرا سلوک کیسے کر سکتے ہیں،ان کے پیار اور خلوص پر شک کیسے کر سکتے ہیں، باقی رہ گئیں حکومتیں وہ چاہے ایک پارٹی کی ہوں یا دوسری پارٹی کی انہوں نے ظاہر ہے آزاد جموں وکشمیر کے لوگوں سے بھی وہی سلوک کرنا ہے جو وہ اپنے لوگوں سے کرتے ہیں،اس سے زیادہ کی ہمیں ان سے مانگ بھی نہیں کرنی چاہیے، اسی طرح بیورو کریسی میں بھی اچھے بُرے ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں، ان کی کسی زیادتی کی سزا یا الزام ہم ملک پاکستان کو نہیں دے سکتے، اس حوالے سے تاریخ میں کئی مثالیں مو جود ہیں، اس لئے ہمیں اپنے کسی بھی بھائی سے دستر خوان پر وہی طلب کرنا چاہیے جو وہ خود نوش کر رہا ہو تا ہے، ہم کسی سے بھی یہ مانگ نہیں کر سکتے کہ وہ اپنے بچے بھوک سے بلکتے چھوڑ کر ہمارے بچوں کیلئے دودھ فراہم کرے، باقی جناب جو استحصالی طبقات ہیں انہوں نے تو ہمیشہ پیارے پاکستان کے لوگوں کا بھی استحصال کیا ہے،وہی روش آزاد جموں کشمیر میں بھی اپنائی ہو گی،اُس میں اس ماں کا کوئی قصور نہیں جس نے اپنا گھبرو جوان بیٹا جموں وکشمیر کی حفاظت کیلئے قربان کیا، میں یہ بات صرف جموں کشمیر کے لوگوں کو نہیں سمجھا رہا بلکہ اُس طرف بھی میں نے اکثر کہا ہے کہ فرظ جذبات میں حد سے نہ گذر جایا کرو، کبھی کوئی پاکستانی بھائی ”کشمیر بنے گا پاکستان“کا نعرہ نہ لگائے، اس کا فیصلہ کرنا صرف کشمیریوں کا حق ہے، اور 78سالوں سے آپ ہی”حق خود ارادیت“کے حصول کی ہمیں اور دنیا بھر کو یاد دلاتے رہے ہو، اور اس خطے کو متنازعہ علاقہ کہتے رہے ہو، آپ نے اگر جذبات میں،محبت میں، جموں و کشمیر کا نعرہ لگانا ہے تو قائد اعم کے فرمودات کی رعایت سے کہو ”کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے“ اور یہ نعرہ بھی بھارت کے اٹوٹ انگ کا جواب سمجھ کے نہیں بلکہ اپنی محبت،چاہت اور یگانگت کے اظہار کیلئے لگاؤ، اور جناب اسی موقع پر وزیراعظم پاکستان کو بھی پر خلوص مشورہ ہے کہآپ نے دل بڑا کیا، کشمیری نثراد ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے مداخلت کر کے ایکشن کمیٹی کے بالکل جائز اور حقیقت پر مبنی مطالبات کو سمجھ کرتسلیم کیا،آپ کے اعتماد و ایماپر آپ کی تشکیل کردہ کمیٹی نے معاہدہ کیا، اب اس کو پورا کرنے کا وقت آیا ہے تو ہمارے ”ابن الوقت“ ممبران اسمبلی نیا ”دولہا“ چننا چاہتے ہیں،تاکہ یہ کسی نہ کسی طرح اس معاہدے سے بھاگ سکیں، آپ کے وعدوں کی نفی کر سکیں،تاکہ ان کی مراعات اور لوٹ کھسوٹ جاری رہ سکے، اور آپ اور مملکت پاکستان، اور ”گارنٹر“ کا بلند ہوچکاوقار اور اعتماد خراب ہو، میرے خیال میں یہ نقطہ گارنٹرز کو بھی سمجھنا چاہیے، اور یقیناََ صدر آصف زرداری اور محترمہ فریال تالپور بھی یہ بات سمجھیں گے، اور درست فیصلے کرنے میں آپ سے تعاون کریں گے، ہم توآپ کو اس بات کا مشورہ بھی نہیں دیں گے،بلکہ سخت مخالفت کریں گے، جیسے کہ کچھ شاطر حلقوں کا ایکشن کمیٹی کو توڑنے، کمزور کرنے کے لئے خیال ہے کہ ”آزاد حکومت توڑ کر ایکشن کمیٹی کے شوکت نواز میر یا سردار امان یا عمر نذیر یا کسی بھی فی اوقت کی عوامی شخصیت کو نگران وزیراعظم یا چیف ایگز یکٹو/ایڈ منسٹریٹر وغیرہ لگا دیا جائے“آپ بھی اور ضامن (گارنٹر) بھی اس بات کو سمجھتے ہیں اور ہم بھی جانتے ہیں کہ اس طرح بھی صرف پیدا ہو جانے والی باہمی
کدورتوں میں اضافہ ہو گا جو کسی طرح بھی پاکستان یا جموں کشمیر کے حق میں نہیں ہو گا، دلوں کو صاف کرنے کا واحد راستہ ہے معاہدوں پر من و عن عمل درآمد، کرنا،تاکہ دل بھی مل جائیں اور لوگ بھی خوشحال اور مطمعن ہو جائیں، عالمی حالات اور دشمن ہمسائیوں کی سازشوں کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ہم آپس کے اتحاد اور بھائی چارے کو مضبوط بنائیں اور ایک جان ہو جائیں، صدا کیلئے ایک ہو جائیں، اور یہ کام اس وقت صرف موجودہ وزیر اعظم انوارالحق سے ہی لیا جا سکتا ہے،اور منظر بدلنے اور بد گمانیاں پیدا ہونے سے بچنے کیلئے انوارالحق سے ہی لیا جائے،یہی دانش مندی کا تقاضا ہے،،،لیکن اب اگر میرے جموں و کشمیر کے چند لالچِ وزارت عظمیٰ میں آجانے والے نادان سیاست دان یا ممبران اسمبلی ہی یہ حقیقت نہیں سمجھتے یا سمجھنا نہیں چاہتے، اب ان کے لئے اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ” پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے“ میاں شہباز شریف جی، محترم صدر آصف زرداری جی اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر جی، یہ باغ،یہ گلشن ہمارا ہے،ہم سب کا ہے، کشمیر اگر جنت نظیر ہے تو یہ جنت سب کی ہے، اس جنت کو ہم سب نے”نذر آتش“ ہونے سے بچانا ہے، بھارت کی غلامی سے بھائیوں کو چھڑانا ہے، اسے جنت کو سجانا ہے، آزاد اور خوشحال دیکھنا ہے،اس میں پیار اور محبت کے پھول کھلانے ہیں، تو ہمیں ان ”نادان اپنوں“ ان ممبران اسمبلی کو قابو میں رکھنا ہے، پاگل پن سے باز رکھنا ہے، تاکہ ہم اس منزل پر خیریت سے پہنچ سکیں جہاں سب کشمیریوں نے مل کر پاکستان سے محبت کے دعووں کو عملی شکل دینی ہے تب راوی نے ہمارے باہمی مقدر میں چین ہی چین اور ملن ہی ملن لکھنا ہے۔
٭٭٭٭٭

Related Articles

Back to top button