
کہتے ہیں کہ خواب صرف بند آنکھوں سے نہیں دیکھے جاتے کچھ خواب دل میں بستے ہیں سانسوں میں اتر جاتے ہیں، اور انسان کو قدم قدم پر آزماتے ہیں۔ بی ایس پولیٹیکل سائنس میری زندگی کا وہ خواب تھا جس نے مجھے وقت سے پہلے بڑا کر دیا۔ یہ وہ راستہ تھا جس پر چلتے ہوئے میں نے صرف علم حاصل نہیں کیا، بلکہ خود کو پہچانا، دنیا کو سمجھا، اور صبر، برداشت، امید اور حوصلے جیسے الفاظ کی گہرائی کو محسوس کیا۔یہ چار سال صرف کتابوں، لیکچرز یا نمبروں کا نام نہیں تھے۔ یہ چار سال خود سے لڑنے، اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرنے، اور ہر ناکامی کے بعد پھر سے خود کو سمیٹ کر کھڑے ہونے کا نام تھے۔ کتنے دن ایسے آئے جب دل شکستہ ہوا، ہمت جواب دیتی محسوس ہوئی، مگر پھر میرے والدین کی دعاؤں کی طاقت نے تھام لیا۔ ان کی خاموش دعائیں، راتوں کے سجدے، میری خاموش آنکھوں کو پڑھ لینے والا اعتماد، وہ سب کچھ ہے جس نے مجھے ٹوٹنے سے بچا لیا۔آج میری زندگی کا ایک اہم اور یادگار دن ہے وہ دن جب میں نے اپنی بی ایس پولیٹیکل سائنس کی ڈگری مکمل کی۔ پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو یہ سفر صرف تعلیم حاصل کرنے کا نہیں تھا، بلکہ سیکھنے، سمجھنے، اور خود کو تلاش کرنے کا سفر تھا۔ ایک ایسا سفر جس نے میری سوچ، میرا نظریہ اور دنیا کو دیکھنے کا زاویہ بدل دیا۔جب میں نے یہ ڈگری شروع کی، تو میرے دل میں بس ایک تجسس تھا یہ جاننے کا کہ سیاست کیسے کام کرتی ہے، فیصلے کیسے لیے جاتے ہیں، اور معاشرے کیوں بدلتے ہیں۔ وقت کے ساتھ جب میں نے کلاسز میں نظریات پڑھے، بحثیں کیں، اور تحقیق لکھی، تو سمجھ آئی کہ سیاسیات محض اداروں یا نظاموں کا مطالعہ نہیں، بلکہ انسانوں کی کہانی ہے۔ یہ ان خوابوں، جدوجہدوں اور امیدوں کا علم ہے جو عام لوگوں کو غیر معمولی بنا دیتے ہیں۔اس ڈگری نے مجھے سوچنا سکھایا، سوال کرنا سکھایا، اور سب سے بڑھ کر، سننا سکھایا۔ میں نے جانا کہ ہر پالیسی کے پیچھے ایک انسان ہوتا ہے، ہر تحریک کے پیچھے ایک کہانی، اور ہر آواز کے پیچھے تبدیلی کی امید۔ ارسطو اور افلاطون کے نظریات سے لے کر موجودہ دور کی سیاست تک، میں نے یہ محسوس کیا کہ اصل سیاست کتابوں میں نہیں، لوگوں کی زندگیوں میں چھپی ہوتی ہے۔یقیناً یہ راستہ آسان نہیں تھا۔ بے شمار راتیں تحقیق لکھتے گزر گئیں، وائیوا کی تیاری نے بیچینی بڑھائی، اور کبھی کبھار خود پر شک بھی ہوا۔ مگر انہی مشکل لمحوں نے مجھے مضبوط بنایا۔ انہی نے صبر، ہمت، اور اعتماد کا سبق دیا۔ میرے اساتذہ نے اس سفر میں روشنی کا کام کیا — ان کی رہنمائی، محبت اور اعتماد نے میری سوچ کو جِلا بخشی۔ ان کا احسان میں ہمیشہ یاد رکھوں گی۔تعلیم سے آگے بڑھ کر، اس ڈگری نے مجھے زندگی کا ایک نیا شعور دیا۔ اب میں جانتی ہوں کہ سیاست طاقت کا کھیل نہیں، احساس کا علم ہے۔ یہ عدل، برابری اور سچائی کو سمجھنے کا نام ہے۔ اس نے مجھے یہ احساس دیا کہ دنیا میں تبدیلی وہی لوگ لاتے ہیں جو دل سے پرواہ کرتے ہیں، بولنے کی ہمت رکھتے ہیں، اور سچ کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔آج جب میں اس منزل پر کھڑی ہوں، تو دل شکر سے بھرا ہوا ہے۔ اپنے اساتذہ کے لیے جنہوں نے رہنمائی کی، اپنے ساتھیوں کے لیے جنہوں نے حوصلہ دیا، اور اپنے والدین کے لیے جنہوں نے ہمیشہ یقین رکھا۔ یہ ڈگری میرے لیے صرف ایک سند نہیں، بلکہ میری پہچان کا حصہ ہے۔ اس نے مجھے سکھایا کہ سوچنا عبادت ہے، علم طاقت ہے، اور انصاف سب سے بڑی خدمت۔میری بی ایس پولیٹیکل سائنس کی تکمیل میرے لیے اختتام نہیں، بلکہ ایک نئے سفر کی شروعات ہے ایک خواب تھا جو آنکھوں میں روشنی بن کر اترا، ایک خواہش تھی جو ہر دھڑکن کے ساتھ جڑی رہی، ایک راستہ تھا جو کٹھن بھی تھا اور انمول بھی، اور آج جب بی ایس پولیٹیکل سائنس کا سفر مکمل ہوا تو ایسا محسوس ہوا جیسے برسوں کا خواب حقیقت بن گیا ہو، یہ صرف ایک ڈگری نہیں، یہ میری محنت، میرے آنسو، میری قربانیوں اور میرے رب کی رحمت کا نتیجہ ہے، نہ جانے کتنی راتیں تھیں جو جاگتے گزر گئیں، نہ جانے کتنے لمحے تھے جب تھک کر ہار ماننے کو دل چاہا، لیکن پھر دل میں ایک صدا گونجتی تھی کہ تم یہ کر سکتی ہو، راستے میں بے شمار چوٹیں آئیں، کبھی لوگوں کی باتیں، کبھی حالات کی سختیاں، کبھی اپنے اندر کی کمزوریاں لیکن ہر زخم نے مجھے اور مضبوط کیا، ہر رکاوٹ نے مجھے اور آگے بڑھنے کا ہنر سکھایا، اور آج جب اس خواب کی تعبیر میرے ہاتھ میں ہے تو دل نم بھی ہے اور شکر سے لبریز بھی، میں ان تمام ہاتھوں کی شکر گزار ہوں جنہوں نے میرے لیے دعا کی، ان لفظوں کی ممنون ہوں جو میرے حوصلے کا سبب بنے، اور ان لمحوں کی مقروض ہوں جنہوں نے مجھے سکھایا کہ خواب صرف دیکھنے کے لیے نہیں ہوتے، ان کے لیے لڑنا پڑتا ہے، تھکنا پڑتا ہے، گرنا اور سنبھلنا پڑتا ہے، اور پھر ایک دن وہ خواب، تعبیر بن کر ہاتھوں میں آ جاتا ہے۔یہ کامیابی صرف میری نہیں، یہ میرے والدین کی دعاؤں، میری ماں کی آنکھوں سے ٹپکتے آنسوؤں، میرے باپ کے خاموش سجدوں اور میرے اساتذہ کرام کی محنت و رہنمائی کا ثمر ہے۔ آج جو بھی ہوں، جن قدموں پر کھڑی ہوں، ان میں میرے اساتذہ کے لفظوں کا، میرے والدین کے یقین کا اور میرے اردگرد محبت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کا عکس ہے۔ میں دل کی گہرائی سے ان سب کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے میری راہ میں چراغ جلائے، میرے حوصلے کو تھامے رکھا اور ہر اس وقت میرا ساتھ دیا جب میں خود کو کمزور محسوس کر رہی تھی۔ یہ کامیابی میرے اکیلے کے بس کی بات نہ تھی، یہ ان سب کا حصہ ہے جو میرے ساتھ قدم بہ قدم چلے۔میرے اساتذہ میرے لیے صرف معلم نہیں، بلکہ چراغ تھے اندھیروں میں۔ ان کی رہنمائی، ان کی ڈانٹ، ان کا اعتماد، ان کے الفاظ… سب نے مجھے سنوارا، نکھارا اور مجھے وہ بنایا جو آج ہوں۔ ان کے بغیر شاید میں ہار مان چکی ہوتی، لیکن انہوں نے مجھے میرے اندر چھپی روشنی دکھائی۔




