
17 ستمبر 2025 کو ریاض میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ، جسے“اسٹریٹیجک میوچل ڈیفنس ایگریمنٹ”(SMDA) کہا جا رہا ہے پر ریاض میں دستخط ہوا۔ ایسیمعاہدے کو اچانک یا آنآ فا نآ نہیں کہا جا سکتا پس پردہ تو سوچ اور بات چیت ضرور ہورہی ہوتی جس کا بنیادی محرک عرب دنیا کے اندر سال بھر سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی، شام اور اردنُ پر بمباری حتی کہ قطر جیسے ملک پر حیران کن طریقے سے بمباری جو جنوبی ایشئیا بین الاقوامی سفارت کاری کا مرکز بن گیا تھا – اس معاہدے کو کسی تمہید کے بغیر پردہ سیمیں پر لانا یقینآ حیران کن ہے جس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا – اگر امریکہ کو لاعلم رکھ کر یا اعتماد میں لئے بغیر ایسا کیا گیا ہے تویقینآ اچھنبے کی بات ہے لیکن ایسا ہو نہیں سکتا، اتنے بڑے معرکہ سے امریکہ کو بے خبر نہیں رکھا جا سکتا –
پاکستان اور سعودیہ کے درمیان تقریباً آٹھ دہائیوں کی شراکت داری پر مبنی فوجی تعلقات چلے آرہے ہیں جن کی بنیاد 1951 کے“ٹریٹی آف فرینڈشپ”ہے۔ پاکستان 1967 سے سعودی فوج کو ٹرینگ دے رہا ہے – 1979 میں حرم پاک پر دحشت گردوں کے حملہ اور قبضہ کوکمال حکمت عملی اور کم سے کم جانی نقصان پر چھڑانا پاکستانی فو جیوں کا ہی کمال تھا – جبکہ 1982 میں دونوں ممالک نے پاکستانی فورسز کی سعودی عرب میں تعیناتی اور مشترکہ تربیت کا معاہدہ بھی کیا۔ حالیہ کشیدگیوں میں مئی 2025 میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان چار روزہ جھڑپ اور اس میں پاکستانی فوجوں کی بر تری، اسرائیل اور امریکہ کی ایران پر بمباری، کم از کم پانچ مسلمان ملکوں پر اسرائیل اور امریکہ کی ملکی بھگت سے بمباری نے اس معاہدے کو فوری طور سر عام لا یا جس کی وجہ اسرائیل کی خلیجی ممالک میں خم ٹھونک کے بمباری اور گریٹر اسرائیل کے نقشے میں رنگ بھرنے کی طرف پیش قدمی کا خدشہ ہو سکتا ہے – ساتھ ہی اسرائیلی وزیر اعظم کے پاکستانی اور ایرانی ایٹمی قوت کے خدشات اور واویلا بھی اہم وجہ ہو سکتی ہے – اس کے ساتھ ہی خلیجی ممالک کو امریکہ کی سلامتی کی ضمانتوں پر شکوک و شبہات میں مبتلاء کر دیا جس کے سارے خلیج میں فوجی دستوں اور ساز و سامان کے باوجود ان پر بمباری اہم وجہ ہو سکتی ہے –
مشرق وسطیٰ میں 40,000 سے 50,000 تک امریکی فوجی اب بھی موجود ہیں۔ جن میں سے سب سے زیادہ حرب و ضرب سے لیس قطر میں ہی ہیں لیکن وہ خاموش تما شاء کے طور عربوں کی نسل کشی کا تماشا دیکھ رہی ہیں – سعودی عرب کی ایران اور اسرائیل سے کشیدگیوں اور پاکستان کی ہندوستان سے دشمنی کو مدنظر رکھنا بھی اس معائدے کا اہم پہلو ہو سکتا ہے –
معاہدے کی اہم شقیں
معاہدہ واضح طور پر کہتا ہے کہ دونوں ممالک پر کسی بھی جارحیت کو دونوں پر حملہ سمجھا جائے گا، اور یہ تمام فوجی ذرائع پر مشتمل جامع دفاعی معاہدہ ہے۔ اس کا مقصد قومی سلامتی کو مضبوط کرنا، علاقائی امن کو فروغ دینا، اور مشترکہ روک تھام کو بڑھانا ہے۔ یہ مشترکہ تربیتوں، دفاعی پیداوار، اور ممکنہ طور پر سعودی عرب میں پاکستانی فوجیوں کی تعداد میں اضافے کو فروغ بھی دے گا۔ تاہم، یہ جوہری چھتری یا ایٹمی ضمانت کی نشاندہی تو نہیں کرتا لیکن معاہدے کی روح کے مطابق جس طرح اور نو عیت کی جارحیت ہوگی اسی طرز پر مذاہمت اور مدا فعت بھی ہوگی جس میں ایٹمی تحفظ بھی شامل ہے – اب مسلمان ملکوں کو پاکستان کی اہمیت اور حیثیت، اپنی بے بسی، یہود اور ہنود پر اعتماد کو ہلا کے رکھ دیا ہے – پاکستان کو اب اپنا اعتماد اپنی طاقت کی بنیاد پر بحال کرنا ہے –
علاقائی جیو پولیٹیکس پر مضمرات
یہ معاہدہ علاقائی توازن کو تبدیل کر سکتا ہے، کیونکہ خلیجی بادشاہتوں کو ا ایران اور اسرائیل کے ساتھ توازن قائم کرنے کے لیے امریکہ کے بجائے نئے اتحادیوں کی تلاش ہے – امریکہ تو اب عربوں کے لئے کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہو سکتا – ادھر چین نے ایران اور سعودیہ کے درمیاں بے رخی اور واضع دشمنی کی دیوار کو پاٹ کر ان کو قریب لانے کی کوشش اہم ترین پیش رفت ہے جس کا ان دو ملکوں کو ادراک کرنا چاھئے – شیعہ اور سنی کی بے معنی بحث کو ترک کر کے“ بنیان مرصوص“ بننے کی ضرورت ہے –
یہ معاہدہ پاکستان کو سعودی عرب کی علاقائی دشمنیوں (جیسے ایران) میں الجھا سکتا ہے، لیکن ساتھ ہی سعودی عرب کو پاکستان کی ہندوستان اور ممکنہ طور پر افغانستان کی لڑائیوں میں شامل ہونے کا پابند بھی کر سکتا۔ کم از کم ہندوستان اور افغانستان پر سیاسی اور سفارتی اثر ڈال سکتا ہے – ساتھ ہی خلیجی ممالک جیسے متحدہ عرب امارات اور قطر کے ساتھ مزید معاہدوں کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے، اور جوہری صلاحیتوں کی وجہ سے بہت ساری بلاؤں کو ٹال اور ان کا روک تھام کر سکتا ہے۔ اگر سعودی عرب ہندوستان پر زور ڈالے تو ہندوستان اپنی معیشت کی خاطر پاکستان سے مفاہمت بھی کر سکتا ہے – پاکستان کو اس موقع کا فائیدہ اٹھا نا چاھئے اور کشمیریوں کو سعودیہ اور یو اے ای کو اس طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے –
پاکستان کے لیے فائدے اور نقصانات
فائدے:
• ہندوستانی فوجی خطرات کے خلاف مضبوط اجتماعی دفاعی ضمانت ملے گی، جو پاکستان کی سلامتی کو بڑھائے گی۔
• سعودی عرب سے معاشی اور فوجی امداد میں اضافہ ہو سکتا ہے، بشمول دفاعی پیداوار اور تربیتوں میں توسیع۔
• علاقائی اثر و رسوخ بڑھے گا، موجودہ تعاون کو مستحکم کرے گا اور نئی راہیں کھولے گا- لیکن پاکستان کو اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہونا پڑے گا –
نقصانات:
• سعودی عرب اور ایران نے اگر اپنی دشمنیاں بتدریج دوستی میں نہ بدلیں تو ہاکستان اس میں الجھ کر علاقائی لڑائیوں سے پاکستان کی وسائل کو تقسیم کرے گا۔
• امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے، کیونکہ پاکستان کو پہلے ہی بیلسٹک میزائل پروگرام پر پابندیاں اور پاکستان کی ساکھ امریکہ میں پہلے ہی کمزور ہے،اس معاہدہ سے بڑھنے کا خدشہ بھی ہے –
• جوہری اور میزائل پروگراموں پر سوالات بھی اٹھیں گے، جو عالمی دباؤ بڑھا سکتے ہیں۔ امریکہ اور ہندوستان پاکستان کے اندر دہشت گردی کو بڑھاوا دے سکتے ہیں
عرب دنیا پر اثرات
یہ معاہدہ خلیجی ممالک کی سلامتی کی تشویشوں کو دور کرے گا، خاص طور پر اسرائیل کی قطر پر حالیہ حملے اور غزہ کی جنگ کے تناظر میں۔ یہ خلیجی تعاون کونسل (GCC) کے مشترکہ دفاعی میکانزم کو فعال بنا سکتا ہے، اور سعودی عرب کو مصر یا ترکی جیسے دیگر عرب/علاقائی پارٹنرز کے ساتھ ملحقہ معاہدے کرنے کی ترغیب دے گا جو عرب دنیا میں ایران مخالف اتحاد مضبوط کر سکتا ہے سکتا ہے، اگر ایسا کسی نے حما قتآ سوچا بھی تو سب پھر زیرو پوائینٹ پر پہنچ جائیں گے – ایران کے ساتھ توازن برقرار رکھنے کی کوشش نا گزیر ہے – تاہم سعودیہ کو اسرائیلی بمباری میں شدید قیمتی جانوں اور املاک کی تباہی کو سامنے رکھ ان ملکوں کی دوستی سے اجتناب کرنے کی ضرورت ہے جہاں ایک دو نہیں سینکڑوں جاسوس پکڑے گئے – ایران کو چاہ بہار کی بندر گاہ کو بھی پاکستانی گوادر کیبمقابلے بلکہ اس کے زریعہ ہندوستان کو کھلی چھٹھی دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاھئی? –
یورپی دنیا پر اثرات
معاہدے کے براہ راست اثرات یورپ پر کم ہیں، لیکن بالواسطہ طور پر یہ عالمی استحکام، توانائی کی سلامتی، اور امریکہ-خلیج تعلقات کو متاثر کر سکتا ہے۔ یورپی یونین کو مشرق وسطیٰ میں اضافی کشیدگی سے تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور مہاجرین کے بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اگر یہ معاہدہ جوہری تشویشوں کو جنم دے تو یورپ کی عدم پھیلاؤ کی پالیسیاں (جیسے IAEA) فعال ہوں گی، اور امریکہ-سعودی اتحاد کی کمزوری یورپی دفاعی حکمت عملیوں (جیسے NATO) کو متاثر کر سکتی ہے۔
ہندوستان پر اثرات
ہندوستان اس معاہدے کو قومی سلامتی اور علاقائی استحکام کے لیے خطرہ سمجھ رہا ہے، خاص طور پر پاکستان کی جوہری صلاحیتوں کی وجہ سے۔ یہ سعودی عرب اور ہندوستان کے حالیہ گہرے تعلقات (معاشی اور دفاعی) کو چیلنج کرے گا، جو اب تک مضبوط ہو رہے تھے۔ ہندوستان نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس کے اثرات کا جائزہ لے گا، اور یہ ہندوستان-پاکستان کی حرکیات کو مزید پیچیدہ بنا دے گا، خاص طور پر مئی 2025 کی جھڑپ کے بعد۔ سعودی عرب نے ہندوستان سے تعلقات کو“سب سے مضبوط”قرار دیا ہے، لیکن یہ معاہدہ علاقائی توازن کو تبدیل کر سکتا ہے۔
کتنا ہی اچھا ہوگا اگر یہ معاعدہ دو طرفہ رہنے کے بجائے مسلمان ملکوں میں نیٹو طرز پر اتحاد بن جائے جو ان ہی اصولوں اور روایات پر چلے جن پر نیٹو چلتا ہے کہ کسی ایک نیٹو ملک پر جار ہئیت سارے ملکوں پر جارہیت سمجھی جائے گی – اسی طرح ٹورسٹ ویزا اور مشترکہ مفادات کے پراجیکٹس کو چلایا جائے –
پاکستان کو اللہ نے معرکہ حق اور بنیان المرسوس کے بعد جو عزت اور نمایاں مقام دیا یہ اس کی بعد دوسرا بڑا موقعہ ہی جب حر مین شریفین کے خدام نے اپنے آپ کو پاکستان کی فوجی امان میں دے دیا ہے – سعودیہ بے شک امر ترین ملک اور پاکستاں Hand to mouth ہے لیکن اس کو جو فوجی صلا حیت اللہ نے دی ہے ساری عرب دنیا اس سے فائیدہ اٹھا سکتی ہے – پاکستان کے ایٹم بمب کواب بے شک“اسلامی بمب“ کئا جا سکتا ہے – اس پر پاکستانیوں کو پاکستان پر فخر اور ا للہ کا شکر ادا کرنا چاھئے – یہ اس وقت دوسروں کی کوتاہئیوں سے بر سر فہرست آ گیا ہے اس کوزندگی کے ہر شعبے میں اپنی طاقوت کی بنا پر ایک نمبر بننا چاھئیے – ڈالروں، ریالوں، دیناروں کی بارش اپنی جگہ یہاں زمیں سے یہ سب کچھ اگنا چاھئے وہ صرف محنت، دیانت اور راست روی سے ہو سکتا ہے – ملک میں سیاسی استحکام اور اقتصادی ترقی کی ضرورت ہے – اس کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے-



