جامعہ سکندریہ میں جلسہ دستار فضیلت‘8علماء کرام،16حفاظ کی دستاربندی

ہٹیاں بالا (بیورورپورٹ) معروف دینی درسگاہ جامعہ سکندریہ کے زیر اہتمام سالانہ عظیم الشان ”جلسہ دستار فضیلت”مہتمم و منتظم اعلیٰ جامعہ سکندریہ و سجادہ نشین دربار عالیہ سکندریہ صاحبزادہ پیر سید فیاض حسین کاظمی کی صدارت میں منعقد، جلسہ دستار فضیلت کی اس روح پرور محفل کے مہمان خصوصی فخر اہلسنت سجادہ نشین درگاہ عالیہ نیریاں شریف پیر طریقت صاحبزادہ پیر شمس العارفین صدیقی تھے جبکہ خطیب کشمیر صدر مرکزی سیرت کمیٹی جہلم ویلی علامہ پروفیسر قاضی محمد ابراھیم چشتی،آزاد کشمیر کی معروف علمی و ادبی شخصیت مہتمم مدرسہ سیدنا ابو تراب گوجر بانڈی علامہ پیر سید محمد اسحاق نقوی،بانی وناظم اعلیٰ مرکزی سیرت کمیٹی جہلم ویلی و مرکزی چیئرمین تنظیم السادات آزادکشمیر و مہاجرین مقیم پاکستان ویلفیئر پیر سید احسان الحسن گیلانی،سجادہ نشین آستانہ عالیہ ندول شریف پیر سید مختار گیلانی نے بطور مہمان خاص شرکت کی، پرنسپل جامعہ سکندریہ صاحبزادہ پیر سید محسن علی کاظمی نے جامعہ سکندریہ کے اساتذ کرام کے ہمراہ جلسہ دستار فضیلت کے موقع پر احسن انداز سے میزبانی کے فرائض انجام دیے، سالانہ عظیم الشان جلسہ دستار فضیلت کے موقع پر مرکزی سیرت کمیٹی جہلم ویلی،انجمن غلامان سیدہ زہراء سلام اللہ علیہا،الکرم فرینڈز،جماعت اہلسنت جہلم ویلی،اہلسنت سپریم کونسل،منہاج القرآن سمیت جملہ تنظیمات اہلسنت نے بھرپور شرکت کی، جلسہ دستار فضیلت کا آغاز جامعہ سکندریہ کے طلبا نے تلاوت کلام پاک سے کیا جس کے بعد بارگاہ رسالت مآبﷺ میں گلہائے عقیدت پیش کیے، جلسہ دستار فضیلت کے مہمان خصوصی سجادہ نشین درگاہ عالیہ نیریاں شریف پیر طریقت صاحبزادہ پیر شمس العارفین کا پنڈال پہنچنے پر جامعہ سکندریہ کے اساتذہ کرام، طلباء و شرکاء جلسہ نے والہانہ استقبال کیا، اس دوران نعرہ تکبیر، نعرہ رسالتﷺ، نعرہ حیدری کی صدائیں گونجتی رہیں، جلسہ دستار فضیلت کے مہمان خصوصی پیر شمس العارفین صدیقی،علامہ اسحاق نقوی،علامہ ابراہیم چشتی و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ سکندریہ جس کی بنیاد مفتی کشمیر الحاج پیر سید سکندر شاہ کاظمیؒ نے رکھی یہ ایک بامقصد اور معیاری تعلیم کا ادارہ ہے جس میں کثیر تعداد میں زیرِ تعلیم بچوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ قدیم و جدید علوم سے روشناس کروا رہے ہیں جامعہ سکندریہ دورِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ اسلامک سکالر پیدا کر رہا ہے،آج کا دانشور بولتا زیادہ اور سوچتا کم ہے، لکھتا زیادہ اور پڑھتا کم ہے اور سوسائٹی پر اس کے اثرات بھی ویسے ہی ہیں، تعلیم مقدار میں بڑھ گئی مگر معیار زوال پذیر ہے، ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جو قوم میں غیرت و حمیت کو پروان چڑھائے،تعلیم کا مقصد ڈگریوں کے انبار لگانا نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت اور وطن کی سربلندی کیلئے اپنا حصہ ڈالنا ہے جامعہ سکندریہ ایسا مرکز ہے جو مذہبی منافرت سے پاک ہے




