آزاد کشمیر کی پہچان عام طور پر برف پوش پہاڑ، جھرنے، سرسبز وادیاں اور خوبصورتی سمجھی جاتی ہے، لیکن اس سرزمین کی اصل تصویر اس سے کہیں زیادہ گہری ہے۔ منجھوال، بان گنگا، کرجائی، نڑالی، تتہ پانی اور گوئی کے گرد و نواح میں صرف مٹی اور پتھر نہیں، کوئلے کی رگیں، industrial clays، بینٹونائٹ جیسی قیمتی تہیں اور دیگر معدنی امکانات چھپے ہوئے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ معدنیات کم ہیں؛ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اب تک اپنے رویّوں، اداروں اور قانون کو اس دولت کے مطابق سنجیدہ نہیں بنایا۔آزاد جموں و کشمیر میں مائننگ کا بنیادی قانون“Azad Jammu & Kashmir Mines Act 1977”ہے، جس کے تحت زیرِ زمین معدنی وسائل ریاست کی امانت قرار دیے گئے ہیں۔ اسی فریم ورک کے تحت بعد میں Mining Concession Rules بنائے گئے، اور آج Directorate General Mineral Resources (DGMR) محکمہ صنعت و معدنیات کے تحت مائننگ لیز، رائلٹی اور نگرانی کا ذمہ دار ہے۔ قانونی اصول سادہ ہے: جس زمین پر آپ کا خسرہ ہے، اس کی سطح اور محدود گہرائی تک آپ مالک ہیں؛ مگر اس کے نیچے جو معدنی ذخائر ہیں، وہ ریاست کی ملکیت شمار ہوتے ہیں، اور ان تک رسائی صرف باقاعدہ لیز اور اجازت سے ہی ممکن ہے۔ مقامی زبان میں لوگ اسے یوں بیان کرتے ہیں کہ“تین فٹ تک زمین ہماری، اس کے نیچے ریاست کی”۔ یہ جملہ عرفی ہے، مگر اس کے پیچھے اصل بات یہی ہے کہ معدنیات نجی جاگیر نہیں، ریاستی امانت ہیں۔کھوئی رٹہ اور اس کے گرد منجھوال، بان گنگا، کرجائی، نڑالی، تتہ پانی اور گوئی میں کوئلے کے آثار، کالی مٹی کی تہیں، bentonite طرز clays اور سخت پتھریلی رگیں صرف مشاہداتی کہانیاں نہیں، geologic حقیقت ہیں۔ کئی جگہوں پر مائن کے اندر دو سے تین فٹ موٹی کوئلے کی رگ ملتی ہے، جو چند گز تک ٹرک بھرنے کا موقع دیتی ہے، پھر fault یا depositional تبدیلی کی وجہ سے اچانک غائب ہو جاتی ہے۔ کہیں چھت نرم اور خطرناک، کہیں پانی کا دباؤ زیادہ، کہیں گیس کی بو، کہیں پتھریلی دیوار پر پیلے سنہری رنگ کی“سونا مکھی”(Pyrite) کی چمک؛ یہ سب وہ مناظر ہیں جنہیں محنت کش مزدور اور مائننگ کے شوقین لوگ اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں، مگر فائلوں میں بیٹھ کر فیصلے کرنے والوں کے سامنے صرف اعداد و شمار رہ جاتے ہیں۔ہمارے ہاں ایک بہت عام جملہ سننے کو ملتا ہے زمین ہماری باہر کے لوگ آ کر ٹرک بھر بھر کے لے جاتے ہیں … کروڑوں روپے کماتے ہیں … ہمیں کیا ملتا ہے؟ یہ جملہ جذباتی تو ہے، لیکن سائنسی اور معاشی لحاظ سے ادھورا ہے۔کوئلہ، بینٹونائٹ یا کسی بھی معدنی ذخیرے کو زمین کے اندر سے نکالنے کے لیے صرف“کھدائی”کافی نہیں؛ یہ مکمل سائنس اور بھاری سرمایہ کاری کا کام ہے۔ مائننگ انجینئرنگ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر ۱۰۰ ٹن کوئلے کے ساتھ درجنوں ٹن dead rock اور waste باہر نکالنا پڑتا ہے۔
مائن کے اندر ventilation، گیس کی مانیٹرنگ، timbering اور پانی کے اخراج پر الگ خرچہ آتا ہے۔
اوپر مزدوروں کی اجرت، مشینری، ڈیزل، گاڑیوں کی مرمت، پولیس و انتظامی formalities، رائلٹی اور لیز کی فیس شامل ہو جاتی ہے۔
اکثر اوقات جو کوئلہ بازار تک“۱۰ روپے فی یونٹ”میں پہنچتا ہے، اسے زمین سے نکالنے پر ۷–۸ روپے لاگت، حادثوں کا خطرہ اور مہینوں کی ذہنی پریشانی ساتھ ساتھ چل رہی ہوتی ہے۔ یہ کہنا کہ“کروڑوں بنا لیے”اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ کہنا کہ“یہ سب کام بغیر قانون اور خرچے کے ہو رہا ہے”۔
قانونی طور پر DG Mineral Resources ہی وہ ادارہ ہے جو exploration license، mining lease اور quarry permit جاری کرتا ہے، مگر عملی سطح پر مسائل کم نہیں۔ درخواست دہندگان کو اکثر لمبے پروسیس، procedural delay اور limited technical staff کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جہاں قانون کہتا ہے کہ lease-holder mining plan، safety measures اور environment management کا پابند ہوگا، وہاں اکثر حقیقت یہ ہے کہ غیر رسمی sub-leasing، زبانی وعدوں اور سیاسی سفارشات کے ذریعے کام آگے بڑھایا جاتا ہے۔ چند مقامی“طاقتور”افراد لیز اپنے نام پر لے کر خود کام نہیں کرتے بلکہ مختلف گروپوں کو“اند ر سے”بیچ دیتے ہیں، کئی جگہ دو اور تین پارٹنرز سے ایڈوانس لے لیتے ہیں، پھر جھگڑا ہوتا ہے، مائن بند ہونے سے مزدور بے روزگار، سرمایہ مستعمل، اور ریاست کی رائلٹی رک جاتی ہے۔ قانون تو کہتا ہے کہ لیز ہولڈر شرائط پوری نہ کرے تو منسوخی اور کارروائی ہو، مگر کمزور نگرانی اور سیاسی دباؤ ان اصولوں کو کاغذ تک محدود کر دیتا ہے۔
ایک بڑی رکاوٹ ہمارے رویّوں میں بھی ہے۔ جب KP یا پنجاب کے تجربہ کار مائنرز، انجینئرز اور مزدور یہاں آتے ہیں تو انہیں فوراً“غیر ریاستی”،“پٹھان”اور“قبضہ گروپ”جیسے لیبل لگا دیے جاتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ معدنیات modern mining کی طلب رکھتی ہیں، اور جہاں مقامی لوگوں کے پاس سرمایہ، مشینری یا تکنیکی تجربہ نہ ہو، وہاں باہر کے سرمایہ کار اور کاریگر قدرتی اتحادی بنتے ہیں، دشمن نہیں۔ اسلام ہمیں انصاف، بھائی چارہ اور اہلِ مہارت کی قدر سکھاتا ہے؛ کسی قوم یا قبیلے کو صرف نام اور زبان کی بنیاد پر مجرم بنا دینا، نہ شریعت کا مزاج ہے اور نہ ترقی یافتہ دنیا کی سوچ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ قانون موجود ہونے کے باوجود عام لوگوں کو نہ Azad Jammu & Kashmir Mines Act 1977 کا علم ہے، نہ mining concession rules کا، نہ DG Mineral Resources کے کردار کا۔ انہیں صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ“یہ جگہ ہماری ہے، وہ ٹرک بھر کے لے جا رہا ہے”۔ اگر ریاست خود آگے بڑھ کر باضابطہ آگاہی دے، کہ زیرِ زمین معدنیات ریاستی ملکیت ہیں، لیز کے بغیر extraction جرم ہے، رائلٹی کی تقسیم کا کیا فارمولا ہے، اور مقامی کمیونٹی کو کیسے شریکِ فائدہ بنایا جائے، تو بہت سے جھگڑے شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو سکتے ہیں۔اصل ضرورت تین سطحوں پر اصلاح کی ہے: قانون کی سطح پر، اداروں کی سطح پر، اور معاشرتی سوچ کی سطح پر۔ قانون کی حد تک فریم ورک موجود ہے، لیکن اسے مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ: sub-leasing کے خلاف واضح شقیں عملاً نافذ ہوں، illegal extraction اور smuggling پر مثال قائم کرنے والے کیس سامنے آئیں، اور ہر بڑے مائننگ پروجیکٹ کے لیے environment impact assessment، labour safety، community consultation اور after-mine rehabilitation لازمی قرار دی جائے۔ اداروں کے اندر technical posts (جیولوجسٹ، مائننگ انجینئر، سروئیر) کو بھرنا، field-based monitoring اور ڈیجیٹل میپنگ سسٹم (GIS) بنانا وقت کی ضرورت ہے۔معاشرتی سطح پر ہمیں تنگ نظری، حسد اور بغض کی جگہ علم، تعاون اور بھائی چارہ لانا ہوگا۔ جہاں کہیں لیز جاری ہو، وہاں مقامی آبادی کو بطور stakeholder شامل کیا جا سکتا ہے—community development funds، مقامی روزگار کا کوٹا، سڑک، اسکول، کلینک یا پانی کے منصوبے شرط کے طور پر رکھے جا سکتے ہیں۔ اس سے مقامی لوگوں کو بھی محسوس ہوگا کہ مائننگ صرف“ٹرک بھرنے”کا نام نہیں، بلکہ ہمارے بچوں کے مستقبل، تعلیم، صحت اور روزگار سے جڑی ایک سنجیدہ معاشی سرگرمی ہے۔کھوئی رٹہ، منجھوال، بان گنگا، کرجائی، نڑالی، تتہ پانی اور گوئی کے پہاڑ زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں ہماری تہوں میں رزق بھی ہے، روزگار بھی، ریاستی آمدن بھی۔ ہمیں لوٹو نہیں، ہمیں سمجھ کر، اصول کے ساتھ، عدل اور علم کے ساتھ استعمال کرو۔
اگر ہم اسلام کی پاسداری کرتے ہوئے امانت، انصاف، بھائی چارے اور علم کو بنیاد بنا لیں؛ سائنس اور جیولوجی کو دشمن نہیں، رہنما سمجھیں؛ قانون کو کمزور کا ہتھیار بنانے کے بجائے سب کے لیے برابر لاگو کریں؛ اور اداروں میں بیٹھ کر فائل نہیں، فیلڈ کو دیکھیں —تو یہی معدنیات آزاد کشمیر کی معیشت کا رخ موڑ سکتی ہیں۔ ورنہ یہ دولت بھی کوئلے کی رگ کی طرح چند گز تک امید دے کر اچانک غائب ہو جائے گی، اور ہم پھر وہی روایتی جملہ دہراتے رہیں گے کہ“ہمارے پاس سب کچھ تھا، ہم نے خود ضائع کر دیا۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے دل کو کھلا کریں، سوچ کو وسعت دیں، سائنس کو تسلیم کریں، دقیانوسی رویوں کو چھوڑیں، اور اعتراف کریں کہ اس کالم میں اٹھائے گئے سوالات کسی ایک فرد کے نہیں، پوری ریاست کے ہیں۔ اگر ہم نے آج بھی ان پر غور نہ کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔




