بنیادی حقوق وحق خود ارادیت کے درمیان کی لکیر

گذشتہ دو سالوں سے آزاد جموں و کشمیر میں احتجاج، ہڑتال اور بنیادی شہری حقوق مانگنے اور چھیننے کا مو سم چل رہا ہے، اور خوب چل رہا ہے، عوام نے تمام سیاسی جماعتوں، ان کی اتحادی حکومت اور ہر طرح کے سیاسی راہنماؤں کو یکسر مستر د کرتے ہوئے اپنی ایک الگ آزاد جموں و کشمیرجوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی قائم کر لی ہے، اور ایک تحریک کا روپ دھار کر حکومت سے اپنے مطالبات منواتے اور کامیابیاں حاصل کرتے جا رہے ہیں، یہ ”موومنٹ“ ٹھیک اور بالکل درست خطوط پر چل رہی تھی، لیکن درمیان میں کچھ ایسی غلطیاں،کوتاہیاں ہو رہی ہیں کہ اس تحریک کے اپنی منزل سے بھٹکنے کے خدشات پیدا ہو تے چلے جارہے ہیں، جس کی بنیادی وجہ مختلف الخیال لوگوں کے اس اکٹھ میں سے کچھ کا اپنے بنیادی معاہدے سے پہلو تہی اور انحراف ہے، جسے بعض جذباتی نیشنلسٹ کہلانے والے بھائی الگ سے اپنے موقف کا اجاگر ہونا خیال کر رہے ہیں، جبکہ سب بخوبی جانتے ہیں کہ اس طرح نہ صرف ہم اپنے اجتماعی موقفٖ کو کمزور کر بیٹھتے ہیں، بلکہ اپنے اس وقت کے اہداف سے ہٹ کر دوسرے محاذوں پر لڑنا شروع کر دیتے ہیں، اور ایک سیدھی سادھی تحریک بلاوجہ مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے، اگر صرف اتنا ہی ہوتا تو ہم اپنے بھائیوں کے جذباتی پن کے احترام میں صرف پرامن رہنے پر زور دے کر خاموش ہو جاتے، لیکن بات کچھ آگے بڑھ گئی ہے، ہم جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی میں شامل کسی بھی گروپ کو ان اداروں کے خلاف گندے نعرے لگانے کی اجازت نہیں دے سکتے جو تمام مذاکرات میں ایکشن کمیٹی کو ”فیسیلیٹیٹ“ کرتے ہیں، جو آزاد حکومت کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کرتے ہیں، جو اسلام آباد سے وزراء کو مظفرآباد بھیجنے میں معاونت کرتے ہیں، جو سارے جائز مطالبات منوانے میں کردار ادا کرتے ہیں، ہم کسی کے مستقبل کی ڈیزائنگ بارے نظریات سے اختلاف نہیں کرتے، مگر زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے آگے بڑھنے کی روش دراصل ہم کشمیریوں کو 78 سالوں سے پیچھے دھکیل رہی ہے، آج اس وقت نظریات وغیرہ پر بحث کرنے کا موقع نہیں ہے، لیکن آج ہمیں ایک بات طے کرنی ہوگی کہ آخر ہماری یہ تحریک کس مقصد کیلئے ہے؟ کیا ہم اپنے بنیادی حقوق اور اشرافیہ کی طرف سے کیے جانے والے استحصال سے تحفظ چاہتے ہیں، یا ہم تحریک آزادی کشمیر کو آگے بڑھا رہے ہیں، یہ دو بالکل الگ الگ جہتیں ہیں، ہم ان کو ایک دوسرے میں اُلجھا کر کسی ایک منزل کی طرف بھی نہیں بڑھ سکتے، اس لیے آج ہمیں تحریک کشمیر اور تحریک حقوق کے درمیان ایک موٹی لکیر کھینچنی ہو گی، تاکہ ایک کی وجہ سے دوسری تحریک کو نقصان نہ ہو، اس وقت بظاہر بنیادی حقوق کی تحریک کامیابی اور فتح کی طرف بڑھ چکی ہے، اب اگر ہم کوئی انتشار، کوئی تفرقہ پھیلا کریاکوئی غلط قدم اُٹھا کر اس کامیابی کو ناکامی میں بدلتے ہیں، تو مجرم ہم ہیں پھر کوئی بھی آزاد حکومت یا مرکز یا اداروں کی طرف انگلی نہیں اٹھا سکتا، کیونکہ اس وقت یہ سب ہمیں ہماری ڈیمانڈ کے عین مطابق سارے حقوق دینے کے لئے تیار ہیں، ایسے میں ہماری بدزبانی یا کوئی عمل حکومت کو معاہدے سے فرار کا راستہ بھی دیتا ہے تو پھر مجرم ہم ہیں، اور دوسری یہ بات یاد رکھیں کہ ہم نے بھی معاہدہ کرتے وقت صرف اداروں پر ہی اعتماد کیا ہے، تو ہمیں اداروں کا احترام اور عزت بھی تو کرنا ہوگی، ورنہ خواہ مخواہ کی زبان درازی کا مطلب ایکشن کمیٹی سے بغاوت بھی ہوگا، اور معاہدے سے انحراف بھی، اب آپ عوام کو صاف صاف بتائیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں، آپ کے خود اختیاری کے نظریات کو ہر کوئی احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے، لیکن بنیادی انسانی حقوق کی قیمت پر نہیں، جس تھرڈ آپشن کی آپ بات کرتے ہیں وہ بہت دلنشیں سہی لیکن وہ آپ کو اکیلا پاکستان نہیں دے سکتا، اس کے لییآپکو یونائیٹڈ نیشن سے رابطہ کرنا ہو گا، اور حق خود ارادیت کی قراردادوں کو تبدیل کروانا ہو گا، ایک بات تو طے ہے کہ آزاد کشمیر یا مقبوضہ جمو و کشمیر کا کوئی بھی شخص پاکستان کو چھوڑ کر بھارت کی غلامی میں نہیں جانا چاہے گا، یا اگر کوئی ایک بھی ایسا ہے تو اس بات کا اعلان کرے تاکہ باقی تو اس سے منہ پھیر سکیں، رہ گئی تھرڈ آپشن کی بات تو پہلے وہ تھرڈ آپشن تلاش تو کر لیں، اور اس کے بعد اس تھرڈ آپشن کو پیش کرنے کے فورم پر بات کر کے اسے بھی ترتیب دے یا دلوا لیں، اس سے پہلے انتہاؤں کو چھونے والے خود اپنے اور اپنی قوم کے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں، اگر آپ کو یاد ہو تو خود کشمیر بنے گا پاکستان کے داعی سردار محمد عبدالقیوم خان نے بھی فرانس یا یورپ کے کسی شہر میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا، ”اگر خود مختاری کا آپشن ملے تو شاید میں بھی اس کو ترجیح دوں“۔ انہی کے مطابق ایک مفروضے پر قوم کے جوانوں کو بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا، آپ اپنے بزرگوں سے اس معاملے میں پوچھ سکتے ہیں، یہ ایک خاصا بڑا ہنگامہ تھا جو کئی ہفتے تک جاری رہا تھا کیونکہ کچھ موقع پرستوں نے ان کی آدھی بات کو وائرل کر دیا تھا کہ ”میں خود مختاری کے آپشن کی حمایت کروں گا“ اس طرح کے”سیاسی سٹنٹ“ تحریکوں کو کبھی کوئی فائدہ نہیں دیا کرتے، اور دوسری اور اہم بات یہ کہ آپ مفروضوں کی بنیاد پرذرا سا غصہ نکال کر دوسروں کو اپنے خلاف بولنے اور عمل کرنے کا موقع ہی کیوں دیتے ہیں؟ کیا آپ حقیقت میں ایکشن کمیٹی کے بیانیہ اور مطالبات سے متفق نہیں ہیں، میں پاکستان سے باہر خاص طور پر یورپ سے اس ساری تحریک کی سپورٹ کرنے والے جموں و کشمیر کے بھائیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان سے یہ پوچھنے کی جرات کروں گا کہ آپ ایکشن کمیٹی کے مطالبات اور بنیادی حقوق کی حمایت و تائید کر رہے ہیں، یا آپ بلا سوچے سمجھے تھرڈ آپشن کی بات کو یہاں آزاد کشمیر میں ہوا دے رہے ہیں، آپ اگر وہاں بیٹھ کر ہماری حمایت کر رہے ہیں ہمیں مالی سپورٹ بھی کرتے ہیں تو ہمارے رستے پر نگاہ کیوں نہیں رکھتے؟ ہم اگر بھٹک رہے ہوں تو کیا آپ ہمیں روکیں گے نہیں؟ اور جناب رہ گئی تھرڈ آپشن کی بات تو آپ سب وہاں باہر بیٹھے کیا کر رہے ہیں، آپ یو این کی طرف رخ کیوں نہیں کرتے، یا یہ بھی ہمیں پاکستان پھولوں کی ٹوکری میں سجا کر پیش کرے گا، اس لیے میری دست بستہ عرض ہے کہ آپ حق خود ارادیت میں ترمیم اور کسی نئے آپشن کا اضافہ چاہتے ہیں، تو تحریک آپ باہر بیٹھے بھائی یہ تحریک عالمی سطح پر چلائیں گے، یہاں والے آپ کی حمایت میں جلوس نکالا کریں گے، تب کامیابی یا ناکامی کا منہ دیکھنا ہمیں نصیب ہو سکے گا، کیونکہ دیگچے میں چاول ڈالے بغیر صرف آگ بھڑکاتے رہنے سے کچھ بھی نہیں پک پاتا، ہاں صرف پانی ہی خشک ہوتا رہتا ہے، اور آپ جانتے ہیں کہ پانی زندگانی ہے، پانی کے بغیر زندگی صرف موت کی طرف ہی آگے بڑھ سکتی ہے، آپ میں سے شاید بہت کم اس حقیقت سے آشنا ہوں گے کہ شاید نہ صرف میں خود بھی”حق خود اختیاری“ کی امنگ رکھنے والوں میں شامل ہوں گا، بلکہ پاکستان سے کئی محب وطن بھی ہماری حمایت کریں گے، لیکن وہ وقت وہ مرحلہ آنے کے بعد، اس سے پہلے میں ایک سچا پاکستانی ہوں سچا اور سُچا پاکستانی ہوں، کہ میں یا میری سمجھ میں کوئی بھی کشمیری کم از کم ایک ایسے بھارت کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرے گا جو باالتحقیق اسلام دشمن، مسلمان دشمن،کشمیر دشمن ثابت ہو چکا ہو، تو بھیا جی ہم سب کو سیدھے رستے پر آنا ہو گا، تھرڈ آپشن کی جدو جہد یونائیٹڈ نیشن میں کرنی ہو گی، جو خود امریکہ کی آکسیجن اور ہائیڈروجن پر جی رہا ہے، میں وطن عزیز کے اداروں کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ مہاجر سیٹوں کے نام جیسی کوئی بھی چیز رائے شماری کے وقت پاکستان کی حمایت کرنے والوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتی، کہ اگر ایسا کچھ ممکن ہوتا تو بھارت نے بھی انڈیا میں بیٹھے کشمیری پنڈتوں کی چالیس سیٹیں بنا کے رکھی ہوتیں، اور متبادل کے طور پر وہاں سے آر ایس ایس کے غنڈے لا کر کشمیر اور جموں میں بسانے کی لعنت اپنے سر ہر گز نہ لیتا، لیکن ادھر کچھ جذباتی بھائی پتہ نہیں کس طرح سے ساڑھے چار ہزار مربع میل میں بیٹھ کر ساڑھے چوراسی ہزار مربع میل کو نظر انداز کرتے ہوئے خود اختیاری حاصل کرنا چاہتے ہیں، جب کہ عالمی عدالت کے فیصلے کے مطابق حتمی حل کسی حصے کا نہیں بلکہ کل رقبے کا ہونا طے ہے، کیا اس سے یہ خدشہ نہیں پیدا ہوتا کہ ہم باقی کے52 ہزار مربع میل سے دست بردار ہو رہے ہیں؟ اگر نہیں تو ذرا خود ہی ”اپنی اداؤں پر غور کیجیے“، بقول شخصے ”ہم اگر عرض کرین گے تو شکایت ہو گی“۔ میری گذارش ہے کہ شوکت نواز میر اور ایکشن کمیٹی کے ساتھیوں کو اپنا کام کرنے دیں، اور ان کے رستے سے رکاوٹیں ہٹائیں، خاص طور پر میرے یورپ وغیرہ میں بیٹھے ہو ئے بھائی بہن، اگر ہم نے عقل کے ناخن نہ لیے تو ایکشن کمیٹی والے ان دیکھی دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے، اور اس کے ذمہ دار ہم سب ہونگے۔ لہٰذا آئیں بنیادی حقوق اور حق خودارادیت کے درمیان ایک گہری لکیر کھینچ کر ایکشن کمیٹی کی طے شدہ منزل پر پہنچیں۔ (اور ہمارے ذمے ہے ہی کیا، سوائے اس کے کہ کھول کر بیان کر دیں)۔
٭٭٭٭٭